بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) کا چیئرمین سپریم کورٹ کو تعینات کرنا چاہیے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تعیناتی تھرڈ امپائر کرتا ہے جس کے بعد نیب تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے اور نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا، نیب ترامیم بحالی سے میری آسانی تو ہو جائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ تھے۔
بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا ۔
دوران سماعت عدالت عظمیٰ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا گیا اور تحریری دلائل کے لئے ایک ہفتے کی مہلت بھی دی گئی۔
بانی پی ٹی آئی کے دلائل
دوران سماعت چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتےہیں کیا آپ کیس سےمتعلق کچھ ایڈ کرنا چاہتے ہیں ؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ کو سن سکتا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک چیز سمجھ نہیں آئی آپ نے لکھا میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، مجھے سمجھ نہیں آئی کون سی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی؟، مجھےتکلیف ہوئی ، کہا گیا میں غیرذمہ دار کیریکٹر ہوں جس کے باعث کیس براہ راست نشر نہیں کیا جائے گا۔
سابق وزیر اعظم کی بات کا جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے آپ نظرثانی دائر کر سکتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتا ہوں ، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی، پونے 2 کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے کی دکھائی گئی، میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین ںیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تعیناتی تھرڈ امپائر کرتا ہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے، نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی اور احتساب پر قائم ہے۔
فارم 47 والے ترمیم نہیں کر سکتے
جسٹس جمال مندو خیل نے عمران خان نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ فارم47 والے ترمیم نہیں کر سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مکالمہ کیا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی؟، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید ، نیب سے متعلق آپکے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا، عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔
جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے، جس پر عمران خان نے کہا کہ 27 سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ممالک کے7 ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہوئے ہیں اس کو روکنا ہوگا، میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں۔
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا نیب ایسے ہی برقرار رہے گا؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ نیب کو بہتر ہونا چاہیے ،کرپشن کیخلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے۔
دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللہ نے بانی پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کرایا جس پر انہوں نے کہا کہ میں جیل میں ہوں ، ترمیم بحالی سے میری آسانی تو ہو جائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ نکال جائے گا، دبئی لیکس میں بھی نام آ چکے پیسے ملک سے باہر جارہےہیں۔
آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کر رہی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کر رہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کر کے سزا معطل کر کے انتخابات لڑنے دیا گیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کر دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا۔
آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں ، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے مکالمہ کیا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں جس پر عمران خان نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں اعلانیہ مارشل لاءلگا ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کچھ بھی ہو گیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں آپ ہماری طرف دیکھ رہے۔
سائفر کیس کا حوالہ
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا تو چیف جسٹس نے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ سائفر کیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کر رہا۔
ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے، ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ فاروق نائیک صاحب آپ کی بھی ذمہ داری ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
چیف جسٹس ریکوڈک ریکوری کا کریڈٹ لینے پر نیب پر برہم
دوران سماعت چیف جسٹس ریکوڈک ریکوری کا کریڈٹ لینے پر نیب پر برہم ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب کے یہ والے پراسیکیوٹر آئندہ اس عدالت میں نہ آئیں، آپ سپریم کورٹ کو مذاق نہ سمجھیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ایسی رپورٹ لکھتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی۔
فیصلہ محفوظ
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ
بعدازاں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا، اداروں کی جانب سےایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہیے، چیئرمین نیب ، پراسیکیوٹر جنرل خود ریکوری اور بجٹ کی اصل رپورٹ پیش کریں، نیب کا گزشتہ10سال کا سالانہ بجٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان صاحب آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کا کہ شکریہ اور کچھ نہیں کہنا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے تحریری دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت بھی دی گئی۔
اٹارنی جنرل
دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا ان کی وکلا سے ملاقات نہیں ہوئی، ہم نے انکی وکلا سے ملاقات اور جیل سہولیات کی تفصیل جمع کروا دی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر سابق وزیر اعظم شکایت کر رہے ہیں تو مجموعی طور پر دیکھ لیں جیل کیسے چل رہی ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے کہا جیل کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ چیک کروا لیں مجھے کیسے رکھا ہوا ہے نواز شریف کو کیسے رکھا گیا تھا جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ میں دوبارہ عوام کے لیے بیٹھ کر ایک اچھا سا قانون بنا دیں۔