بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی جبکہ سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سائفر میں حکومت گرانے کا کہا گیا تو پھر ایسی معلومات کیوں نہیں دینی چاہیے تھی؟ جس پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے اسپیشل پراسیکوٹر نے جواب دیا کہ کیونکہ یہ دستاویزکانفیڈنشیل تھا۔
منگل کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پیش ہوئے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا آج دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا اور آج ڈیجیٹل اور ڈاکومنٹری ثبوتوں پر مبنی دلائل دوں گا ، اس کیس میں آڈیو اور ویڈیو شواہد ماہرین نے پیش کیے ہیں، ماہرین کے بیانات کے بعد اُن پر جرح بھی کی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے فیصلے میں اِن شواہد پر انحصار کیا ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ماہرین کی شہادت کا اپنے فیصلے میں ذکر کیا ہے، ٹرائل کورٹ نے اس پر فیصلہ نہیں دیا مگر اپنی ججمنٹ میں ذکر کیا ہے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر کو پبلک کیا گیا، اس پر میں چارج فریم پڑھوں گا، بانی پی ٹی آئی نے آفیشل سیکرٹ دستاویزات کو پبلک کیا، وزیر اعظم کی حیثیت سے آفیشل دستاویزات کو پبلک کیا گیا، وزیراعظم کی حیثیت سے بڑے عوامی اجتماع میں سائفر کو پبلک کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کمیونیکیشن آف انفارمیشن کوئی جرم ہے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی پر عائد کی گئی فردِ جرم سائفر سے متعلق تھی، ان کو بطور وزیراعظم سائفر دستاویز فراہم کی گئی، وہ اس بات کو خود تسلیم کر چکے ہیں، انہوں نے سائفر کو پبلک کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا محض معلومات دینا بھی جرم بنتا ہے؟ ، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی، وہ بھی جرم بنتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے اس عمل سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا، ان کے دانستہ یا نادانستہ اقدام سے دیگر ممالک نے فائدہ اٹھایا، سائفر کی معلومات صرف 9 لوگوں سے شیئر کی جاتی ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ نے ایک سفیر کو ڈیمارش کیا ، اس وقت تعلقات خراب نہیں ہوئے؟، ڈیمارش کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، ایک شخص کے کہنے پر کسی ملک سے سفارتی تعلقات کیسے خراب ہو گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ وہ دستاویزات بتائیں جو پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں ڈیویلپ کیں، کس بیرونی طاقت سے ہمارے تعلقات خراب ہوئے؟۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات خرابی کے شواہد کیا ہے؟ آپ نے شواہد میں ڈی مارش پیش نہیں کیا؟، ڈی مارش کوئی خفیہ دستاویز تو نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک ملک کو آپ نے خبردار کیا کوئی تھینک یو تو نہیں کہا ہوگا، سائفر میں کیا تھا کس معلومات سے ہیرا پھیری کی گئی؟ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر میں کہا گیا اگر اسے نہ ہٹایا تو نتائج بھگتنے ہوں گے، یہی سائفر کا متن تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو نہ ہٹایا تو خطرناک نتائج ہوں گے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے جو کہا وہ درست تھا؟ کیا بانی پی ٹی آئی سچ بول رہے تھے؟۔
جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ ’ بالکل یہی میسج تھا ‘ بانی پی ٹی آئی خود تسلیم کر رہے ہیں۔
جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ اس کو چھوڑ دیں آپ خود بتائیں کہ کیا تھا جسے تبدیل کیا گیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہ صاحب ایسے نہیں ہے آپ سول معاملے کی بات کر رہے ہیں یہ کرمنل کیس ہے، کرمنل کیس میں پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کرنا ہے، اگر ملزم خود تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنا ہے،ایڈمیشن کا یہ مطلب نہیں کہ پراسیکیوشن ڈسچارج ہو گئی،پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں اس بند لفافے میں تھا کیا؟۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سائفر سو صفحات کا بھی ہو سکتا ہے ایک پیراگراف کا بھی ، ہمیں نہیں پتہ، ٹرائل کورٹ کو نہیں پتہ، پراسیکیوشن کو نہیں پتہ، ایف آئی اے کا الزام ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر میں ہیرا پھیری کی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اُس نے سائفر کا درست متن پبلک کر دیا تو پھر ہیرا پھیری کیا ہوئی؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بلاواسطہ ہی صحیح، کس ملک کو اس کا فائدہ ہوا؟ اگر سارے کہہ دیں کہ رات ہو گئی تو رات تو نہیں ہو جائے گی نا؟ اگر سب کہہ رہے ہیں کہ تعلقات خراب ہو گئے تو اس طرح تو نہیں ہو جائیں گے، کسی نے جنگ کا اعلان کر دیا اقوام متحدہ میں لے گئے، کیا ہوا؟۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے بین الاقوامی میڈیا اداروں کو سائفر متن پڑھ کر سنائے تھے، بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو میں وہ خود بتا رہے ہیں کہ امریکا نے کیا کہا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے بانی پی ٹی آئی کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر بھی سنایا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عالمی میڈیا میں جو رپورٹ ہوا وہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ان کے مخالفین کے بیانات ہیں، رانا ثناءاللہ کا بھی بیان ہے، یہ سیاسی بیانات کی رپورٹنگ ہے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ غیر جانبدار میڈیا کی بھی رپورٹنگ ہے، وائس آف امریکا، ڈی ڈبلیو اور دیگر عالمی میڈیا نے بھی ذکر کیا۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ 8 سے9 تک آپ نے بھارتی اخبارات کا ذکر کیا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ اس کو نظر انداز کریں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر حساس دستاویز ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا گیا جس پر جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال کر دستاویز پیش کیا جاسکتا تھا جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹ دستاویز عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا؟، کیا کسی ادارے کے سربراہ نے کہا یہ خفیہ دستاویز ہے پیش نہیں کی جائے گی؟ ایف آئی اے کے سامنے تو سائفر پیش نہیں کیا گیا ، عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت نے مانگا ہی نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کیوں مانگتی پراسیکیوشن کو پیش کرنا چاہیے تھا، اگر ہم کہیں کہ سائفر دیکھنا ہے تو کیا کرینگے؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم عدالت میں پیش کر دیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن نے پراسیکیوٹر نے مکالمہ کیا کہ آپ خوفناک راستے پر چل رہے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ دستاویز صرف عدالت کو دکھانے کیلئے لا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت اس دستاویز سے متعلق فیصلے میں نہیں لکھ سکتی تو پھرکیا ضرورت ہے؟۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر کا جو متن بتایا وہ درست تھا، حکومت گرانے کا کہا گیا تو پھر ایسی معلومات کیوں نہیں دینی چاہیے تھی؟ جس پر پراسیکوٹر نے کہا کہ کیونکہ یہ دستاویزکانفیڈنشیل تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج یہیں ختم کرتے ہیں کل دوبارہ سنیں گے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں بھی کل کوشش کروں گا کہ دلائل مکمل کرلوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آپ نے دلائل مکمل کرلئے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی سوالات کی وجہ سے آج مکمل نہیں ہوسکا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ قدغن تونہ لگائیں ناکہ سوال نہیں کرنا، سوال تو ان سے بھی بہت کیے ہیں، پھرامید کریں گے کل آپ بھی مکمل کریں اور جواب الجواب بھی مکمل ہوجائے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی کل عدالت میں پیش ہوں، اسٹیٹ کونسلز بھی کل کی سماعت میں عدالت میں پیش ہوں۔
بعدازاں، عدالت نے اپیلوں پر مزید سماعت بدھ ( کل ) تک ملتوی کردی۔