پاکستان میں بلاشبہ تمباکو پر ٹیکسز بڑھانے میں اہم پیش رفت کی ہے لیکن ملک ابھی بھی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سفارشات کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں ناکام ہے جس کا بنیادی مقصد زندگیاں بچانے اور تمباکو کے استعمال کو بتدریج روکنا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری سفارشات کے مطابق تمباکو پر ایکسائز ٹیکس ریٹیل پرائس کا کم از کم 70 فیصد ہونا چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کا دو سطحی نظام موجود ہے۔ 2022-23 کے دوران ٹوبیکو پر عاید ٹیکسز کے بعد، خوردہ قیمتوں میں موجودہ FED کا حصہ نچلے اور اعلی درجوں کے لیے بالترتیب 48 فیصد اور 68 فیصد ہے۔ گلوبل ٹوبیکو انڈیکس کے مطابق پاکستان 2005 سے WHO کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (WHO FCTC) کا ایک اہم فریق ہے۔ تمباکو کنٹرول کے اقدامات کو نافذ کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم تمباکو کی صنعت میں مداخلت کمزور پالیسیز کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
گلوبل ٹوبیکو انڈسٹری انٹرفیرنس انڈیکس 2023 میں پاکستان کو 32 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس، ریٹیل پرائس کی اوسط، 61 فیصد تک ریکارڈ کہ گئی ہے جب کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ معیار 70 فیصد ہے۔کنٹری ہیڈ برائے تمباکو فری کڈز (CTFK) ملک عمران احمد کے مطابق ، "ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیز کو ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق استوار کریں تاکہ تمباکو کے استعمال کو کم کرتے ہوئے قیمتی جانیں بچائی جا سکیں".
سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سینٹر (SPDC) نے اپنے حالیہ جاری پالیسی پیپر، "صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات اور زندگی بچانے" میں اگلے مالی سال کے بجٹ میں FED میں 37 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ ایس پی ڈی سی کے مطابق FED میں 37 فیصد اضافہ کر کے ملک میں 265,000 جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔اور اس کیساتھ ساتھ 37.7 بلین روپے کی اضافی آمدنی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اور 757,000 لوگوں کو سگریٹ نوشی چھوڑنے پر راغب کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ملک میں سگریٹس پر عائد ٹیکسز میں اضافے کے خلاف لابنگ کرنے والی سگریٹ کمپنیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کو گزشتہ سات سالوں میں ریونیو میں 567 ارب روپے کا حیران کن نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (CRD) کی ڈائریکٹر مریم گل نے کہا، "پاکستان کو ڈبلیو ایچ او کی سفارشات پر سختی سے عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔" انہوں نے کہا کہ سگریٹ کی کم قیمتوں کی وجہ سے پاکستان اب بھی علاقائی ممالک اور باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو نوشی بہت زیادہ ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر 31.6 ملین بالغ افراد - جو کہ بالغ آبادی کے تقریباً 20 فیصد کے برابر ہیں - پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ تمباکو کے استعمال میں سالانہ تقریباً 160,000 اموات کے لیے بھی ذمہ دار ہے، جو کہ ہر سال صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کی مد میں ملک کے جی ڈی پی کا 1.4 فیصد ہے۔