سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کے حصے کے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے سنی اتحاد کونسل کے حصے کے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جا سکتی ہیں قانون میں ایسا کچھ ہے؟ اگرقانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہی جماعتوں کو نہیں دی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا؟ ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر نمٹانا چاہتے ہیں۔ آئین کی منشا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا تحفظ کیا جائے، کسی کی نشستیں دوسرے کو دینا مینڈیٹ کے خلاف ہے۔ آئین میں واضح لکھا ہے پارلیمان میں نمائندگی متناسب ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے متضاد مؤقف کیسے قائم کر لیا؟ کس بنیاد پر نشستیں دیگر جماعتوں کو تقسیم کیں؟ پارلیمانی پارٹی تسلیم کرکے مخصوص نشستوں سےکیسےمحروم رکھاگیا۔ جسٹس محمدعلی نے کہا کہ کیا کسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں؟۔
وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے، الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا منظور
اٹارنی جنرل کی آرٹیکل 51 کی تشریح کیلئے لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا منظور کرلی گئی، عدالت نے کیس لارجر بینچ کیلئے کمیٹی کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 3 جون تک ملتوی کر دی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تین جون سے کیس روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت وضاحت کرے کہ تناسب سے زیادہ جو نشستیں دی گئیں صرف وہ معطل کی جاتی ہیں، اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے حکمنامے میں وضاحت کر دی۔ سپریم کورٹ کے مطابق جو تناسب سے زیادہ نشستیں دوبارہ تقسیم میں سیاسی جماعتوں کو دی گئیں وہ معطل کی جاتی ہیں۔
تین رکنی بینچ پر اعتراض مسترد
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی اور وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراض عائد کردیا گیا ۔ مؤقف اختیار کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا تاہم عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے 3 رکنی بینچ پر اعتراض مسترد کردیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے تاہم عدالت نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس سٹیج پر تو2رکنی بینچ بھی سماعت کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جبکہ اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کررکھی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا جسے پشاور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔
آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
عدالت کی جانب سے آج کی سماعت کا حکم نامہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اضافی مخصوص نشستوں کی حد تک فیصلے معطل کئے جاتے ہیں، اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے وکیل کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، الیکشن کمیشن کےمطابق مخصوص نشستوں کیلئے کم از کم ایک سیٹ پر الیکشن جیتنا لازمی ہے، اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سے اتفاق کیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ آئینی تشریح کا معاملہ ہونے پرلارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے مطابق کیس کی آئندہ سماعت 3 جون کو ہوگی۔