اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
صحافی برادری کےلیےافغان سرزمین پر حقائق تک رسائی اورمعلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے،صحافت افغان سرزمین پر ایک مذاق بن کر رہ گئی جبکہ شعبہ صحافت افغانستان میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے صحافتی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے،2021 میں افغانستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 122ویں نمبر پر تھا جو 2023 میں 156ویں نمبر تک پہنچ گیا۔مارچ 2022 میں وائس آف امریکہ کی نشریات پر قومی پریس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کی مد میں پابندی لگائی گئی۔صحافیوں کوطالبان قیادت پرتنقیدی مواد شائع کرنےکی صورت میں گرفتاری اور لائسنس منسوخی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی
بی بی سی کےمطابق طالبان کی جانب سےافغانستان کی عوام پر اپنے ظلم و بربریت کے خلاف بولنے والےکئی صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا،طالبان کی جانب سے بی بی سی کو مواد نشر نہ کرنے کے حکم کے بعد پروگرامنگ بند کر دی گئی
سی بی ایس نیوز کے مطابق ملکی صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق اگست 2021 سے پہلے افغانستان میں 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال رہ گئے ہیں، 2023 میں افغان طالبان نے پاکستانی صحافی، انس ملک کو اغواء کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جو طالبان کی حکومت مکمل ہونے کے پہلے سال کی کوریج کر رہا تھا،
طلوع نیوز کےمطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 270 سے زائد میڈیا تنظیموں نے اپنا کام معطل کر دیا ہے،سال 2022 میں چھ ماہ میں ہی آزادی صحافت کے 75 سے زائد واقعات درج کیے گئے جن میں 33 صحافیوں کی گرفتاریاں اور 42 میڈیا اہلکاروں کو حراساں کرنے کے واقعات شامل ہیں۔
سال 2023 میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کی حراست کے 108 واقعات درج ہوئے،2023 میں یونسکو نے افغانستان میں متعدد صحافیوں کی ہلاکت پر رپورٹ شائع کی،رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 50 فیصد سے زائد میڈیا چینلز بند ہو گئے ہیں۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نےافغانستان صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کےمطابق میڈیا ورکرز کی کل تعداد میں نصف سےزیادہ کمی آئی ہے،جبکہ خواتین صحافیوں کےایک چوتھائی حصے میں سے صرف 15 فیصد باقی رہ گئی ہیں،ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کےمطابق حال ہی میں طالبان نے اسلامی اورقومی اقدار کو نظر اندازکرنے پرافغانستان میں دو ٹی وی چینلز، نور ٹی وی اور بریا ٹی وی چینلز کی نشریات کو معطل کر دیا،۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کےمطابق گزشتہ تین سالوں میں آزاد میڈیا اور آزادی اظہارکو خطرناک حد تک نقصان پہنچا ہے،طالبان کی جانب سےمتن کو نشر یا شائع کرنے سے قبل جائزہ لینےکی مشروط اجازت رکھی گئی۔
عالمی اداروں کو چاہیے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے استحصال پر نوٹس لیتے ہوئے موثر عملی اقدامات کریں