اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاوں کیخلاف اپیلوں پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
پراسیکیوٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سامنے آنے والی آڈیو میں سائفر کے ساتھ کھیلنے کا تذکرہ ہے، وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایف آئی اے میں انکوائری رجسٹر ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کی بجائے وزارت داخلہ مدعی کیوں بنی؟ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اس نکتے پر بہت زور دیا جس پر حامد علی شاہ نے کہا کہ میں آگے چل کر اس سے متعلق عدالت کی معاونت کروں گا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ انکوائری میں معلوم ہوا کہ سیکشن 5 اور 9 کی خلاف ورزی کی گئی، انکوائری کی بنیاد پر 2023ء ایف آئی آر میں درج کی گئی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت مقدمہ درج ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جیل ٹرائل کالعدم قرار دیا گیا ، پہلے مرحلے میں 17 سماعتیں ہوئیں، 3 گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہوئے، 21 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کالعدم قرار دیا۔
حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے لاہور ہائی کورٹ رولز کے تحت جیل کوعدالت ڈیکلیئر کیا تھا، 13 دسمبر 2023ء کو دوسری بار فرد جرم عائد کی گئی، وزرات قانون نے 2 نوٹیفکیشن جاری کئے جس کے مطابق جیل ٹرائل ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نوٹیفیکیشن کے مطابق ہوتا ہے؟ جبکہ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جج کی تعیناتی چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت سے ہوتی ہے آپ نے کیا؟۔
حامد علی شاہ نے بتایا کہ ہاں جی ہم نے جج کی تعیناتی اسی طرح سے کی تھی، ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں 12 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے، ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں گواہوں پر جرح پر دونوں فریق مطمئن تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کون تھے؟ پھر ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے مقرر کئے گئے وکلاء کون تھے؟ جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مائی لارڈ یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ ملزمان کے اپنے وکلاء کون تھے جن کے وکالت نامے تھے؟ اور پھر وہ وکلاء کون تھے جن کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے ملزمان کیلئے مقرر کیا؟۔
جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ ملزمان کے اپنے اور ایڈووکیٹ جنرل کے مقرر کردہ وکلاء کا تقابلی جائزہ بہت ضروری ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ 25 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے 24 جنوری کو 4 گواہوں پر جرح مکمل تھی، بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمود قریشی کے وکلا کی غیرموجودگی کی وجہ سے اسٹیٹ کونسل مقرر ہوئے جس پر جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکالت نامے کن وکلا کے دیئے گئے ، کیس میں جنہوں نے جرح کی ان تمام وکلا کا ڈیٹا عدالت میں جمع کروا دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 30 جنوری 2024 کو ٹرائل کورٹ نے سائفر کیس میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ دلائل کیلئے کتنا وقت لیں گے؟ جس پر حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کوشش کروں گا کم وقت لوں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے سلمان صفدر کو وقت دیا آپ کو بھی دیں گے۔
بعدازاں عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔