اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
منگل کو ہونے والے سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل جاری رکھے اور سماعت کے آغاز پر انہوں نے کہا کہ 2 گواہوں کے بیانات پر دلائل کے بعد اپنی گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ سائفر کا طریقہ کار کیا ہے اس سے متعلق دستاویزی شواہد بھی پیش کر دیں۔
لازمی پڑھیں۔ سائفر کیس، کیا ہم عدالتی وقت کے بعد کی سماعتوں کا نکتہ بھول جائیں؟، اسلام آباد ہائیکورٹ
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اعظم خان کے بیان میں کیا تبدیلی ہوئی تفصیلات لکھ کر لایا ہوں، دو گواہوں کے متعلقہ حصے عدالت کے سامنے پڑھوں گا ، گواہ اسد مجید ، فیصل ترمذی اور اعظم خان کے بیان پر جرح سے متعلق بتایا تھا ، اعظم خان نے وزیر اعظم کو ایڈوائس کی کہ وہ متن کو پبلک نہیں کر سکتے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیسے کہہ سکتے ہیں اعظم خان بیان سے منحرف ہو گئے ؟۔
سلمان صفدر نے بتایا کہ اس مقدمے میں کئی ملزمان نکالے گئے ، کئی الزامات واپس لیے گئے، اعظم خان نے بنی گالامیٹنگ کے منٹس لکھے، 31 مارچ 2022 کو نیشنل سیکیورٹی میٹنگ ہوئی، سرکار کیس بنائے تو کیا ہونا نہیں چاہیے کہ تمام کاغذات سامنے رکھے۔
لازمی پڑھیں۔ سائفر کیس، اگر کوئی کہے پاک ایران گیس پائپ لائن بنا دوں تو کیا جیل میں ڈال دیں گے؟، اسلام آباد ہائیکورٹ
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اعظم خان کے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنےبیان میں فرق ہے، پرانے بیان سے پِھرنا ملزم کے حق میں جاتا ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اعظم خان کے بیان میں تبدیلی کیا تھی وہ بتائیں جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعظم خان نے ایسا کیا کہا کہ جس سے پراسیکیوشن کا کیس خراب ہوا ہو؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اعظم خان کا بیان تو مستقل رہا اور وہ اپنے پچھلے بیان سے نہیں ہٹے، اعظم خان کا بیان ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے سائفر گم ہو گیا، اعظم خان بتا رہا ہےکہ بانی پی ٹی آئی نے جلسے میں دستاویز لہرایا، وہ یہ تو نہیں کہہ رہا کہ ڈاکومنٹ کیا تھا جس سے لگے کہ سائفر واپس مل گیا تھا۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کو سائفر کاپی گمائی، گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے اس کے سامنے سائفر کاپی کی تلاش کا کہا، اعظم خان عدالت میں بیان میں کہہ رہا ہے کہ سائفر گم ہو گیا، مِس پلیس الگ لفظ ہے اس سے کوئی بدنیتی نظر نہیں آتی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق عوامی اجتماع میں کاغذ 27 مارچ کو لہرایا سازش 28 مارچ کو میٹنگ میں تیار ہوئی، پراسیکیوشن نے بعد میں اس نکتے پر اصرار ہی نہیں کیا، سرکار جب کیس بنائے تو توقع ہوتی ہے کہ تمام دستاویزات سامنے رکھے جائیں، جو ڈاکومنٹس ملزم کے حق میں جا سکتے تھے وہ سامنے ہی نہیں لائے گئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر اعظم خان کو ایف آئی آر میں ملزم نامزد کیا گیا تھا، تفتیشی افسر نے کہا کہ کبھی بنی گالہ سائفر کی تلاش کے لیے نہیں گئے، ایف آئی آر کے دو پورشن ہوتے ہیں، اعظم خان نے ضمانت کیلئے رجوع نہیں کیا مگر اسدعمر نے تو درخواست ضمانت بھی دی تھی، اعظم خان کو17ماہ انکوائری میں شامل ہونے کیلئے طلبی نوٹس جاتے رہے ہیں، 15 تاریخ کومقدمہ درج ہوتا ہے مگر 16 تاریخ کو اعظم خان 161 کا بیان ریکارڈ کروانےآجاتا ہے، اعظم خان ضمانت بھی کروا کر نہیں آیا ، مجسٹریٹ نے اعظم خان کا بطور ملزم 164 کا بیان ریکارڈ کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب اعظم خان کا 164 کا بیان ہوا کیا وہ کسٹڈی میں تھا ؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ اعظم خان نے 161 کا بیان ریکارڈ کرایا اسی وقت 164 کا بیان کروا دیا گیا، شریک ملزمان کو نوٹس تک نہیں کیا گیا۔
بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اعظم خان کا 164 کا بیان پڑھا ہی نہیں جاسکتا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مان لیتے ہیں 164 کا بیان ہے ہی نہیں پھر کیا پوزیشن ہوگی؟ جب اعظم خان نےبیان دے دیا اورجرح بھی ہوگئی توپھر164 کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایک اہم سول بیوروکریٹ اعظم خان غائب ہو جاتے ہیں، فیملی نے مقدمہ درج کرایا، عدالت میں درخواست بھی دائر کی، پھر جب وہ واپس آ جاتا ہے تو عدالت سے درخواست بھی آرام سے واپس لے لی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعظم خان کی بازیابی کی درخواست اسی عدالت میں زیرسماعت تھی، اعظم خان کے واپس آ جانے پر وہ درخواست واپس لے لی گئی تھی جبکہ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک سول سرونٹ اچانک غائب ہو جائے، پھر واپس آ جائے تو پوچھنے پر کہے کہ کسی کا کیا تعلق کہ وہ کہاں تھا، آپ کسی اور کو بتا کر نہیں جاتے کہ کہاں جا رہے ہیں۔
جسٹس میاں گل نے استفسار کیا کہ کیا اپنے بیوی بچوں کو بھی بتا کر نہیں جاتے کہ کہاں جا رہے ہیں؟ پھر وہ گھر والے عدالتوں میں آ کر درخواستیں دائر کرتے ہیں، ہم اس معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی پوچھیں گے۔
بعدازاں، چیف جسٹس عامر فاروق نے دوران سماعت بتایا کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں، آج کی سماعت میں تاخیر کی ایک وجہ یہ تھی، بنیادی طور پر ہائیکورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے، خطوط میں اینتھراکس کا بتایا گیا ہے۔
عدالت عالیہ نے بعد میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔