ریاست پاکستان نے ڈالر کی اونچی اڑان پر قابو پانے کیلئے انتظامی اقدامات کے ذریعے اپنی رٹ قائم کر دی۔ بے لگام ڈالر سستا ہونے سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ کرنسی مارکیٹ میں استحکام اور پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں کمی آئے گی۔ برآمدات اور قانونی ذرائع سے ترسیلات زر کی آمد بڑھنے سے روپیہ مزید تگڑا ہونے کا بھی امکان ہے۔
ڈالر کی ٹرپل سنچری مکمل ہونے کے بعد ریاستی مشینری حرکت میں آئی۔کرنسی اسمگلنگ۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کیخلاف سخت کریک ڈاؤن اور کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس معطل کرنے جیسے انتظامی اقدامات سے ڈالر کا ریٹ ڈیڑھ ماہ کی کم ترین سطح 290 روپے 86 پیسے پر آگیا۔
برآمد کنندگان بھی اب ڈالر تیزی سے مارکیٹ میں فروخت کرنے لگے ۔ پوری ملکی معیشت پر اثرانداز ہونے والے ڈالر کا ریٹ نیچے آنے سے 30 فیصد کی بلند سطح پر قائم مہنگائی میں بھی کمی کا امکان ہے۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اگر ایک امپورٹڈ انفلیشن کا عنصر تھا تو وہ تھوڑا سا سنبھلے گا۔ اس لیے کہ 6 فیصد کے قریب انٹربینک میں روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مارکیٹ کی فنکشنگ بہتر ہوگی، لیکوڈیٹی واپس آئے گی، انٹربینک مارکیٹ جو ترسیلات زر آف چینل چلی گئی تھیں وہ واپس فارمل چینل میں آئیں گی ۔ لوگ ڈالر ہولڈ کرنے کے بجائے روپے میں کاروبار کریں۔
یاد رہے کہ اپریل سے اگست 2023 کے دوران ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کے قرضوں میں 9300 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا جس میں اب بتدریج کمی کا امکان ہے۔
اگست میں پاکستانی برآمدات میں 14.41 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ قانونی طریقے سے ترسیلات زر کے بہاو میں بہتری سے ڈالر کا ان فلو مزید بڑھے گا اور روپے کی قدر میں مزید بہتری متوقع ہے۔ مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والے اقتصادی ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں ڈالر ریٹ 278 سے 280 کے درمیان آنے کا امکان ہے۔