پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ یہ سول کیس نہیں ہے بلکہ کریمنل کیس ہے اور مفروضوں پر نہیں جا سکتے۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکلاء سلمان صفدر اور دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ اور ذوالفقار عباسی نقوی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے آفس سے کوئی آیا ہے؟ ، ہم نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے رپورٹ منگوائی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان صفدر نے استفسار کیا کہ آپ نے جج پر جو اعتراض کیا تھا وہ درخواست دکھائیں؟، سائفر کیس کی سماعت کے دوران جب جج پر اعتراض آیا تھا توعدالت نے آبزرویشن دی تھی، عدالت نے آبزرویشن دی تھی ٹرائل جج کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیئے کہ سائفر آفس 24 گھنٹے کام کرتا ہے، سائفر بذریعہ ای میل موصول ہوا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ابھی جو سائفر آتا ہے وہ بذریعہ ای میل کوڈڈ شکل میں آتا ہے ، آفیسر اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے ڈی کوڈ کرے گا۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اوریجنل سائفر اسی کے پاس رک جائےگا سیکرٹ لینگوئج بھی اسکے اوپر لکھی ہوئی ہے، سیکرٹری فارن افیئرز اجازت دیتا ہے کہ سائفر کس کس کے پاس جانا ہے، سائفرکی کاپی جس کے پاس بھی جائے وہ اوریجنل سائفر تصور ہوگا جو واپس کرنا ضروری ہے، یہ سائفر واپس کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جو ای میل کوڈڈ فارم میں بذریعہ ای میل آیا کیا وہ اب موجود ہے؟، جو سائفر کوڈڈ فارم میں ہے وہ رہے گا ؟ جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرنے بتایا کہ جی وہ تو رہے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر ای میل کے ذریعے کوڈڈ لینگوئج میں آتا ہے؟، سائفر دفترِ خارجہ میں موجود ہونے کا مطلب کہ ای میل موجود ہوگی؟ جبکہ جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا اصل سائفر دفترِ خارجہ میں موجود ہے؟۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سائفر کی اصل کاپی کو دفترخارجہ میں موجود ہونا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو گا نہیں، آپ کو بڑا ٹو دی پوائنٹ جواب دینا ہو گا۔
یہ کریمنل کیس، ڈاکومنٹ بھی ریکارڈ پر نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ یہ کریمنل کیس ہے ڈاکومنٹ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے، ڈاکومنٹ جس کے غلط استعمال یا ٹوئسٹ کرنے کا الزام ہے اسکا متن ریکارڈ پر ہی نہیں ہے، یہ سول کیس نہیں ہے بلکہ کریمنل کیس ہے اور مفروضوں پر نہیں جا سکتے ، بغیر کسی شک و شبہ کے پراسیکیوشن نے یہ ثابت کرنا ہے۔
وکیل نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے سامنے یہ کیس سنا گیا تو بینچ نے بار بار کہا اس کو سائفر نہ کہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا کوڈ تک بانی پی ٹی آئی کی کسی اسٹیج پر رسائی تھی؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ بالکل کوئی رسائی نہیں تھی نہ ہی ایف آئی اے کا یہ کیس ہے ، سائفر سیکیورٹی کا سیکریٹ کوڈ تک تو رسائی ہی نہیں تو کیسے سسٹم کمپرومائز ہو گیا۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ کل میں عدالت کے سامنے درخواستیں ہائی لائٹ کروں گا وہ کیا ہیں ، ہم نے ٹرائل کورٹ کو سائفر گائیڈ لائن کی درخواست دی تھی جو مسترد کردی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارا کیس ایک ڈاکومنٹ کے اردگرد گھوم رہا ہے ، وہ ڈاکومنٹ ریکارڈ پر نہیں ہے یا کم از کم متن بھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ آئیڈیلی پراسیکیوشن کا کیس یہ تھا کہ دفترخارجہ سے کوئی سائفر چوری کرکے دشمن ملک کودے دے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گواہ کہہ رہا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت پر سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو دی گئی ؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ تفتیشی افسر نے کسی اسٹیج پر یہ نہیں کہا کہ اسے سائفر کی کاپی دی گئی جبکہ پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ وہ رجسٹر کی کاپی کی بات ہو رہی ہے۔
وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس میں کچھ لنکس مسنگ ہیں ، سائفر سیکشن کے افسر شمعون کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ رھا ہوں ’’ وزارت خارجہ میں ایک سیکشن " سیکرٹ سیکشن پولیٹیکل" ہے،‘‘ دفتر خارجہ کے گواہ شمعون نے کہا کہ اوریجنل سائفر دفتر خارجہ میں پڑا ہے، اس ایف آئی آر میں سائفر لفظ غلط استعمال ہوا ہے ، سائفر دفتر خارجہ میں ہی رک جاتا ہے آگے کاپی پلین ٹیکسٹ جاتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سپر کاپی کوئی آفیشل ٹرمینالجی تو نہیں ہے ؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جو نمبر لگا ہے وہ سائفر نہیں پلین ٹیکسٹ ہے یہ ظاہر ہو رہا ہے ، درست پوزیشن یہ ہے گواہ یہ کہہ رہے ہیں سائفرکی کاپی پر پاکستان میں نمبر لگا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ٹرائل کورٹ فیصلے میں بھی کچھ جگہوں پر میں نے پڑھا ہے وہاں بھی کاپی لکھا ہوا ہے۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے اپیلوں پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔