تحریر : محمد اکرم چوہدری
آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر صدر پاکستان بن گئے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں وہ سیاسی میدان کے اہم کھلاڑی ہیں۔ حکومت بنانے کی بات ہو یا حکومت گرانے کا معاملہ ہو پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر کسی کے لیے کچھ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری ہمیشہ اپنی سیاسی طاقت کو دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ مہارت اور عقلمندی کے ساتھ استعمال بھی کرتے ہیں۔ ملک کے تمام صوبوں میں اہم سیاسی خاندانوں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور آصف علی زرداری ان تعلقات کو نبھانے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ وہ دوستوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کا ہر ممکن ساتھ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سیاسی مشن پر نکلتے ہیں ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر وہ پاکستان کے صدر بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی رخصت ہوئے ہیں ان کے جانے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس عہدے کے تقاضوں کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے کارکن بنے رہے۔ صدر بننے کے بعد آصف علی زرداری کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں کیونکہ ملک کے سیاسی حالات اچھے نہیں ہیں، تقسیم، نفرت، انتقام، سیاسی شدت پسندی، معاشی مشکلات، سیاسی کارکنوں پر قائم مقدمات سمیت ہمیں دیگر بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان حالات میں وہ سیاسی عدم استحکام کو کم کرنے اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہ ضرور دیکھنا ہو گا۔
جہاں تک مختلف سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہے وہ اس حوالے میں خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کا ٹمپرامنٹ بھی اچھا ہے۔ ملک کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جگہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ بالخصوص تین صوبوں میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے۔ خیبر پختونخوا میں مسلسل تیسری مرتبہ پی ٹی آئی حکومت میں آئی ہے جو کچھ وہ مرکز میں نہیں کر سکے خیبر پختونخوا میں تو کر سکتے ہیں۔ صوبے میں تو انہیں کسی نے تعمیر و ترقی سے نہیں روکا، وہ ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے صوبے سے اس کا آغاز کریں، خیبر پختونخوا کو ملک کا مثالی صوبہ بنائیں، تعلیم، صحت، پولیس کا ایسا نظام قائم کریں کہ دیگر صوبے پیروی کے لیے مجبور ہو جائیں، ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام قائم کریں کہ دیگر صوبوں کو بھی کرنا پڑے، سیاحت کے فروغ کے لیے کام کریں، فلاحی صوبہ بنائیں، بیانات سے باہر نکلیں اور جو کرنے کے کام ہیں وہ کریں۔
دوسری طرف یہی کام پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں کرنا چاہیے کیونکہ وہاں پی پی پی مسلسل حکومت بنا رہی ہے۔ اندرون سندھ اور بالخصوص کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیے اور کتنا وقت چاہیے۔ پنجاب میں مریم نواز آئی ہیں وزارت اعلیٰ ان کا بھی امتحان ہے وہ پہلی مرتبہ اس عہدے پر آئی ہیں۔ ان کے سامنے سیاسی مخالفین بھی ہیں۔ مریم نواز اور ان کی ٹیم نے سیاسی مخالفین کو بھی غلط ثابت کرنا ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تعمیر و ترقی پر بھی توجہ دینی ہے۔ کاش کہ آئندہ عام انتخابات میں بالخصوص ان تینوں صوبوں میں حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو خالصتا کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ پڑیں، لوگ اپنے حکمران ضرور چنیں لیکن اس کی بنیاد صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ہو۔
آصف علی زرداری کا امتحان یہ ہو گا کہ وہ کیسے غیر سیاسی رہتے ہوئے اپنے عہدے سے انصاف کرتے ہیں۔ انہیں ناصرف غیر جانبدار ہو کر معاملات کو آگے بڑھانا ہے بلکہ ہر مشکل وقت میں ایک تجربہ کار سیاست دان کی حیثیت سے بھی پارلیمنٹ میں موجود افراد کی رہنمائی کرنی ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ طے کر لیں کہ انہوں نے ملک میں انصاف کا بول بالا کرنا ہے، میرٹ کو عام کرنا ہے، سیاسی انتقام نہیں لینا، غیر ضروری بیانات سے گریز کرنا ہے، قابلیت کو معیار بنانا ہے تو بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں، کئی کام ایسے فیصلوں سے ہی ہو جائیں گے۔ ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کریں آصف علی زرداری اس معاملے میں سب سے اہم اور متحرک کردار نبھا سکتے ہیں۔ انہیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
دونوں جماعتوں کے سیاسی مفادات بھی ایک دوسرے سے جڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری کے لیے صدارتی ووٹ مانگنے پنجاب حکومت کے پاس گئے تھے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے مریم نواز شریف کو عہدہ سنبھا لنے پر مبارکباد دی۔ ان کے والد دوسری مرتبہ پاکستان کے صدر بنے ہیں یہ ان کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں "صدر کا عہدہ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے، ایک مخصوص جماعت نے تقسیم پیدا کی، اس مسئلہ کو ہم نے حل کرنا ہے، کبھی پاکستان کی سیاست اور ثقافت ایسی نہیں رہی، آگے بڑھیں نفرت اور سیاست کی تقسیم کو دفن کریں، ایسا راستہ نکالیں کہ معاشرہ ترقی کرنا شروع کرے، وفاق اور چاروں صوبے مل کر آگے چلیں گے۔"
آصف علی زرداری دوسری مرتبہ ملک کے صدر بنے ہیں ان کے پہلے دور میں وزیراعظم بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا لیکن انتظامی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اس دور کو کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ امن و امان کی صورت اچھی نہیں تھی، لوڈ شیڈنگ اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا تھا۔ اس مرتبہ وہ صدر بنے ہیں تو ان کی جماعت نے اب تک وفاق میں وزارتیں نہیں سنبھالیں لیکن آصف زرداری کا صدر بننا اور مسلم لیگ ن کا ہر سطح پر ان کی حمایت اور ووٹ یہ ثابت کرتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دو بڑی جماعتوں کا یہ سیاسی اتحاد کب تک چلتا ہے اور اس اتحاد سے ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سب سے اہم ملک کا بہتر مستقبل ہے۔ اگر نئی حکومت پانچ سال مکمل کرتی ہے تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ بہرحال آصف علی زرداری کو ایک مرتبہ صدر پاکستان بننے پر مبارکباد!!!
آخر میں حبیب جالب کا کلام
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک