محمد اکرم چوہدری
بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کہتے ہیں کہ "کور کمانڈرز کانفرنس اعلامیے کی تائید کرتا ہوں، 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے ۔ 9 مئی کے واقعات پر کمیشن بننا چاہیے اور سی سی ٹی وی ویڈیوز نکالی جائیں۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ ہم فوج کے خلاف نہیں نہ تصادم چاہتے ہیں، ہماری پارٹی فوج کے خلاف نہیں ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف پر امن احتجاج کرنا چاہتے ہیں، جمہوریت میں پرامن احتجاج ہر جماعت کا حق ہے۔"
بانی پی ٹی آئی کے اس بیان میں چار اہم چیزیں ہیں، سب سے پہلے انہوں نے کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کی تائید کی ہے، پھر انہوں نے نو مئی کے واقعات پر کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی جماعت فوج کے خلاف نہیں ہے سب سے آخر میں انہوں نے پرامن احتجاج کی بات کر دی ہے اور یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر آج تک انہوں نے سیاست کی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کرتے رہیں گے۔
یہیں سے بات کا آغاز کریں تو یہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی جماعت کی پالیسی واضح کر دی ہے وہ کسی صورت ملک میں سیاسی استحکام کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ جب تک ملک میں احتجاج ہوتے رہیں گے سیاسی استحکام ممکن نہیں ہے بالخصوص گذرے دس بارہ برس میں عمران خان نے صرف احتجاج ہی کیا ہے ، جب تک وہ حکومت میں رہے اس وقت تک احتجاج کرنے والوں کے حوالے سے ان کے خیالات بہت مختلف ہوتے تھے، اب وہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہیں، خود جیل میں ہیں تو انہوں نے اپنے آزاد سیاسی ساتھیوں کو احتجاج کا پیغام بھی دے دیا ہے۔
اب چونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ وہاں سے کچھ بھی کر سکتے ہیں پھر ملک بھر میں جہاں کہیں چاہیں گے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کریں گے جس سے سڑکیں بند ہو جائیں، معیشت کو نقصان پہنچے، سرمایہ کاروں میں خوف پیدا ہو اور لوگ پاکستان سے بھاگنے لگیں، احتجاج سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق تو ہے لیکن اس احتجاج سے متاثر ہونے والوں کا بھی کوئی بنیادی حق ہے یا نہیں، پی ٹی آئی والوں نے خود تو دل کھول کر قرض لیے ہیں وہ قرض کے معاملے کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال تو کرتے ہیں لیکن خود احتجاج میں لگے رہتے ہیں حالانکہ احتجاج ختم کریں گے معیشت مضبوط کریں گے معاشی اصلاحات کریں گے تو قرضوں کے چنگل سے نکلیں گے۔
کاروبار ہو گا نہیں، سڑکیں بند رہیں گی، اسمبلیوں میں لڑائیاں ہوتی رہیں گی تو مسائل کہاں اور کیسے حل ہوں گے لیکن ان کاموں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمیں لڑنا جھگڑنا ہے اور دنیا کو تماشا دکھانا ہے۔ عمران خان نے احتجاج کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے اراکین پارلیمنٹ پہلے سے ہی اس فلسفے پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی تمام تر جمہوری و سیاسی روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے وفاق سے مزاحمت کریں گے، وہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا استقبال نہیں کریں گے، وہ وفاق کے ساتھ ہر وقت میچ ڈالے رکھیں گے، وہ ہر وقت مزاحمت کرتے رہیں گے۔
یعنی ایک مرتبہ پھر ہم نوے کی دہائی والی سیاست دیکھیں گے جہاں محترمہ بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے محترمہ جب بھی پنجاب کے دورے پر آتیں میاں نواز شریف وزیراعظم صاحبہ کا استقبال نہیں کرتے تھے اب تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اب میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں اور علی امین گنڈا پور وہ کام کریں گے جو نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلٰی کی حیثیت سے کیا کرتے تھے یعنی ہم دو ہزار چوبیس میں بھی لگ بھگ تیس سال پرانی سیاست کر رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی والے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کر رہے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے نو مئی کے واقعات پر کمیشن بنانے کا مطالبہ اور کور کمانڈرز کانفرنس اعلامیے کی بھی تائید کر دی ہے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی فوج مخالف نہیں ہے لیکن کیا وہ قوم کو یہ بتائیں گے کہ گذشتہ دو برسوں میں انہوں نے جو الزامات دفاعی اداروں پر عائد کیے ہیں ان کا مطلب کیا ہے۔ ان کی جماعت نے نو مئی کو جو کیا یا ان کی قیادت نے جس انداز میں لوگوں کو بھڑکایا اس کا کیا جواز ہے۔
انہوں نے کمیشن کی بات تو کر دی ہے اگر کمیشن بنتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں، کمیشن کسی نتیجے تک پہنچتا ہے تو کمیشن کے نتائج تسلیم کون کرے گا۔ پی ٹی آئی قیادت اگر واقعی سمجھتی ہے کہ نو مئی کے ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے تو پھر اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری خواتین گرفتار ہیں انہیں رہا کیا جائے، کارکن گرفتار ہیں انہیں رہا کیا جائے یہ گرفتاریاں تو نو مئی کے فسادات کا نتیجہ ہیں اس لیے ایسے بیانات سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ کاش کہ سیاسی جماعتوں نے ماضی سے کچھ سیکھا ہوتا اور ایسی سیاسی روایات کو فروغ دیا ہوتا کہ لوگ خدمت کے جذبے سے سیاسی میدان میں آنے کو اعزاز سمجھتے لیکن یہاں صورت حال مکمل طور پر مختلف ہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر 9 رکنی بینچ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کی کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10 اے کے مطابق نہیں تھی ۔ اس ریفرنس سے ایک اچھی چیز ضرور سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے تصحیح کا راستہ نکالا ہے، غلطی تسلیم کرنے کے بعد معاملات کو آگے بڑھنا چاہیے، اداروں کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں غلطی تسلیم کرنے کے بعد دوبارہ غلطیاں نہ کرنے کا عزم بھی ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس ریفرنس سے سبق سیکھنا چاہیے اگر اعلی عدلیہ نے غلطی تسلیم کی ہے تو پھر ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر ذاتی اختلافات کو بھلانا ہو گا۔ غلطیاں سب نے کی ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں لہذا ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور آگے بڑھیں۔ ماضی صرف اصلاح کے لیے ہے ہر وقت ماضی میں الجھے رہنا ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب ٹوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ہے مری روح میں مینا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری مری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
تو بشر بھی ہے مگر فخر بشر بھی تو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا
میں تجھے عالم اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈھیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا
ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
شرق اور غرب میں بکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا