عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنانے والی ملکی تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے فوری ختم ہونے کا تو کوئی امکان نہیں ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقدامات ایسے ہیں جن پر عمل کر کے مہنگائی کی شدت میں کچھ کمی لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسز میں اضافے،پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والی زیادتی سے آج کل پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ مہنگائی کی اس شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ میں ماہرین اقتصادیات کے حوالے سے لکھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کو خواہشات اور ضروریات میں فرق سامنے رکھنا ہو گا۔
عوام کو گھر کے اخراجات کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے اور بہت ضروری اخراجات کی ایک لسٹ بنائی جانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شاپنگ مال پہنچ کر بہت سی ایسی چیزیں خرید لی جاتی ہیں جو بظاہر اہم نہیں ہوتیں۔ شاپنگ کے اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق کسی بھی گھر میں عام طور پر جو ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، ان میں مکان کا کرایہ ، یوٹیلٹی بلز، سودہ سلف، تعلیمی اخراجات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
کفایت شعاری سے کام لیا جائے
ماہرین کے مابق سادہ طرز زندگی اپنا کر بھی مہنگائی کی شدت سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر نمائشی برتری کے اظہار سے بچتے ہوئے دوسروں کی دیکھا دیکھی مہنگے برانڈز کی اشیا خریدنے کی بجائے سیل میں لگی ہوئی اشیا خریدی جائیں تو اس سے بھی بچت ممکن ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مہنگے شاپنگ مالز سے خریداری کرنے کی بجائے سستی دوکانوں سے شاپنگ کی جانی چاہیے۔ اگر آپ بازار کی بجائے ہر ہفتے منڈی جا کر فروٹ اور سبزیاں زیادہ مقدار میں ہفتے بھر کے لیے خرید سکیں تو اس سے بھی بچت ہو سکتی ہے۔
ایک کمائے اور پانچ کھائیں، ایسا نہیں چلے گا
اس مہنگائی میں ایک کمائے اور پانچ کھائیں والا فارمولہ نہیں چلے گا۔ اب چار کمائیں گے تو پانچ ٹھیک سے کھا سکیں گے۔ بچیاں اپنے گھروں میں بچوں کو پڑھائیں، خواتین آن لائن کھانا فروخت کریں۔ سلائی کڑھائی سیکھیں۔ بڑے لڑکے سیلز مینی کرلیں یا ویک اینڈ پر اضافی جاب کریں۔ پھر جا کر معاملات درست ہوں گے۔
مل کر بچت کرنا ہوگی
رپورٹ کے مطابق لاہور کے علاقے ابدالین سوسائٹی میں چند رہائشیوں نے مہنگے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات بچانے کے لیے بچوں کے پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لی ہیں۔ پہلے دس کلومیٹر دور ایک ہی اسکول میں بچوں کو چھوڑنے چار گاڑیاں جاتی تھیں اب ایک گھر کی گاڑی بچوں کو اسکول چھوڑ آتی ہے اور دوسرے گھر کی گاڑی لے آتی ہے۔ اگلے دن یہ ذمہ داری دوسرے گھر والے ادا کرتے ہیں۔
لاہور کے ایک اور علاقے واپڈا ٹاؤن میں پڑھی لکھی گھریلو خواتین نے بچوں کو گھر پر پڑھانے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ بچے مہنگے اسکولوں میں جانے کی بجائے ایک گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں اور خاتون خانہ انہیں پڑھاتی ہیں۔ اگلے دن بچے دوسرے گھر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں دوسرے گھر کی خاتون بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ یہاں گھر پر پڑھنے والے بچوں کی تعداد سولہ تک پہنچ چکی ہے یہ بچے پانچویں جماعت میں رسمی اسکول میں جاتے ہیں۔
گھر میں کم بجلی استعمال کرنے والے آلات (پنکھے، اینرجی سیور، اچھے میعار کی تاریں اور انورٹرز اے سیوغیرہ) لگا کر بجلی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مہنگی بجلی والے اوقات (پیک آورز) میں بجلی کم استعمال کرکے بل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں لاہور کے ایک اور رہائشی سے متعلق لکھا گیا ہے کہ انہوں نے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اپنی رہائش اپنے کام کی جگہ کے قریب شفٹ کر لی ہے اور بچوں کا اسکول بھی قریب ہی ڈھونڈ لیا ہے۔