بھارتی زیرتسلط مقبوضہ کمشیر میں کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ کشمیریوں کے مصائب کی داستان سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔
تفصیلات کے مطابق بھارت نے اکتوبر 1947 کو کشمیری عوام کی مرضی کے برعکس اور آزادی ایکٹ کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ کشمیری عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا، اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر اب تک 5 قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں مگر ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
ہندوستانی افواج اب تک مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے، ایک لاکھ سے زائد زائد بچے یتیم جبکہ 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئی، مقبوضہ کشمیر میں اب تک 16 لاکھ کشمیری گرفتار جبکہ 11 سو سے زائد املاک نذرِ آتش کی جا چکی ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے،5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے معیشت اور روزگار منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 16.2 فیصد ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پیچھے حکمران جماعت بی جے پی کا ہندوؤں کی آبادکاری کا مقصد کارفرما تھا۔
سینئر کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، اس کے مستقل حل کے لئے عوام کو حق خودارادیت دیا جانا چاہیے، میر واعظ عمرفاروق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں نہ کوئی جمہوریت ہے نہ ہی قانون کی حکمرانی، جموں کشمیر میں بھارتی فوج عام عوام سے لڑنے کے لئے تعینات ہے۔
مشعال ملک نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے، ہمیں اقوام متحدہ سے فوری قرارداد پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کی تبدیلی کو روک کر نئی مردم شماری کروائی جائے۔