سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے اور تلخی سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔
سائفر کیس میں سہیل محمود کے بطور گواہ ریکارڈ کرائے گئے بیان کی کاپی سامنے آگئی، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود پی ٹی آئی حکومت کو سائفر کی رازداری ختم کرنے کے نقصانات سے آگاہ کرتے رہے۔ بتایا اس سے غیرملکی سفارت کاروں سے تبادلوں کا نقصان ہوگا۔ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک کے علاوہ مالیاتی اداروں سے تعلقات بھی خراب ہوں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے بطور گواہ بیان میں بتایا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم کو امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔
سابق سیکریٹری خارجہ نے کابینہ اجلاس کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔ بتایا یہ اجلاس ’’سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنے‘‘ کے معاملے پر بحث کیلئے بلایا گیا تھا اور ایک علیحدہ اجلاس اُس وقت کے وزیراعظم کی بنی گالا میں رہائش گاہ پر منعقد ہوا ۔
سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 8 اپریل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنا ممکن ہے اور نہ ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔انہوں نے کابینہ کو یہ بھی بتایا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے کیلئے ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے نہ ہی قانون میں اجازت ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ 27 مارچ 2022 کو سابق وزیراعظم نے عوامی اجتماع میں ایک خط لہرایا جس پر امریکی نظام الامور نے مجھ سے رابطہ کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ سائفر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی نقل سیکریٹری ٹو پی ایم اعظم خان کو 8 مارچ 2022ء کو بھیجی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب 29؍ ستمبر 2022ء کو وہ ریٹائر ہوئے تو اعظم خان کو فراہم کردہ سائفر کی نقل وزارت خارجہ کو واپس نہیں کی گئی۔مارچ میں ایک موقع پر اعظم خان نے بتایا کہ وزیراعظم کو اپنے کاغذات میں سائفر کی کاپی نہیں مل رہی۔ کیا اس کی دوسری کاپی مل سکتی ہے۔ جس پر بتایا کہ جو نقل فراہم کی گئی ہے اس پر نمبر درج تھا لہذا اسے تلاش کیا جائے۔