اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود سیاسی رہنماؤں کی نظربندی پر ڈی سی اسلام آباد اور پولیس افسران کیخلاف توہین عدالت کیس میں مئی سے ستمبر 2023ء تک تمام نظر بندی آرڈرز جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈی سی اسلام آباد اور پولیس افسران کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،اسلام آباد کے تین تھانوں اور ڈی سی اسلام آباد دفتر کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا، ریکارڈ کیپرز کے بیانات بھی قلمبند کرلئے گئے۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 14 فروری تک کے لئے ملتوی کردی۔
دوران سماعت ڈپٹی کمشنر آفس کے ریکارڈ کیپر علی محمد بھی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے، ریکارڈ کیپر ڈپٹی کمشنر آفس نے کہا کہ ایم پی او آرڈرز کا ریکارڈ لیکر آیا ہوں، جسٹس بابر ستار نے انہیں ہدایت کی کہ آپ اپنا بیان حلفی جمع کرا دیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ڈپٹی کمشنر نے جتنے آرڈر جاری اور واپس لئے تمام ریکارڈ جمع کرائیں۔
وکیل ایس ایس پی فاروق بٹر نے کہا کہ ہم ریکارڈ کیپرز پر جرح کرنا چاہتے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ آرڈر ریکارڈ کیپر نے جاری نہیں کئے، ان پر جرح نہیں کرسکتے، ڈی سی صاحب نے آرڈر جاری کئے تھے، آپ ان پر جرح کرلیں۔ اگر وہ جواب نا بھی دینا چاہئیں تو ان کی مرضی ہے۔
تھانہ مارگلہ،تھانہ انڈسٹریل ایریا،تھانہ آبپارہ کے ریکارڈ کیپرز کے بیان ریکارڈ کیے گئے، عدالت نے پراسیکوٹر سے استفسار کیا کہ کیا 342 کے لیے ہم پہلے سوالنامہ تیار کریں گے؟ ہم فریقین سے ڈائرکٹ جوابات مانگ لیتے ہیں، کیس چلانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے وہ آپ سب پر ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ریاستی مشینری جو آئین کے تحت چلتی ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ اس میں قید بنتی ہے یا جرمانہ، وکلاء نے عدالت کو مطمئن کرنا ہے، انصاف ہونا چاہئے، مجھے صرف اس چیز سے غرض ہے۔ آپ سب کے ہوتے ہوئے مطمئن ہوں کہ میں بھی کوئی غلطی نہ کروں۔