ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی اسلام آباد کیخلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ریماکس دیے کہ کیا سرکاری افسران کو بولیں کہ وہ کسی گریٹ گیم میں مہرے بن جائیں؟
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی اسلام آباد کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت وکلاء صفائی نے عدالت پر اعتراض اٹھا دیا۔ کہا سرکاری ملازمین مشکل حالات میں ڈیوٹی کرتے ہیں، دباؤ بھی ہوتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ سادہ سا رول آف لاء کا کیس ہے۔ کسی اور جج کو منتقل نہیں کریں گے۔ کیا سرکاری افسران کو یہ بولیں کہ وہ کسی گریٹ گیم میں مہرے بن جائیں؟ شہادتیں ریکارڈ کرکے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کردیں گے۔
ڈی سی راولپنڈی اور سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت میں پیش ہوگئے، جسٹس بابر ستار نے افسروں سے کہا کہ آپ بھی ریکارڈ پیش نہیں کررہے، کیا آپ بھی ان کی طرح توہین عدالت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں؟
وکیل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوٹر نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کی کاپی ہمارے پاس نہیں، میری جانب سے بھی اعتراض ہے، عدالت کے سامنے رکھنا ہے، اس عدالت کی کارروائی میں یہ تکنیکی چیزیں نہیں ہوں گی۔ استدعا ہے کہ کیس دوسری عدالت کو منتقل کر دیا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ایک سادہ سا کیس ہے ،رول آف لاء کا معاملہ ہے، اس کیس کو کسی اور جج کو ٹرانسفر نہیں کررہے، آپ دلائل دیں، ایم پی او آرڈرز ٹھیک تھے تو فیصلہ آجائے گا، انہوں نے کئی دن تک اس ملک کے شہریوں کو جیل میں رکھا۔
وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری افسران مشکل حالات میں ڈیوٹی کررہے ہوتے ہیں،ان پر بھی دباؤ ہوتے ہیں، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اب یہ کہیں کہ پولیس افسر اور دیگر کسی گریٹ گیم میں مہرے بن جائیں؟ آپ نے اعتراضات اٹھائے تو ہم نے انھیں نوٹ کرادیا ہے، شہادتیں ریکارڈ کر لیتے ہیں، پھر کاپیاں آپ کو دے دیں گے، شہادتیں مکمل ہونے کے بعد سماعت انتخابات کے بعد رکھ لیں گے۔