سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کا 24 صفحات پر پر مشتمل اپیل کا حق دینے کی حد تک اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا 24 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی سامنے آگیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کے 24 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ اپیل کا حق دینے کی حد تک ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ ایکٹ میں اپیل کا حق دینے کا سیکشن 5 کالعدم قرار دیا جاتا ہے، آرٹیکل 184 تین کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق دینا آئینی ترمیم سے ممکن ہے، اپیل کا حق دینا بلا شبہ ایک مثبت اقدام ہے، 184 تین کے کیسز میں اپیل کیلئے آئینی ترمیم کا راستہ اپنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ سادہ قانون سازی سے سیکشن 5 پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، اٹارنی جنرل اور حامی وکلاء اصل دائرہ اختیار میں پارلیمنٹ کی مداخلت کے دفاع میں ناکام رہے، پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دے کر ایک نیا دائرہ اختیار متعارف کرایا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں اپیل شامل نہیں کرسکتی۔
واضح رہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی ان 6 ججز میں شامل تھے جنہوں نے ایکٹ کا سیکشن 5 کالعدم قرار دیا تھا۔