اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی ) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کے ڈائریکٹر جنرلز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا جبکہ تمام ٹیلی کام آپریٹرز کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا ہے۔
ہفتے کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے رہنما اور معروف قانون دان سردار لطیف کھوسہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے۔
حکمنامہ
عدالت عالیہ نے حکم جاری کیا کہ ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے آڈیو لیکس کیس میں 19 فروری 2024 کو ذاتی حیثیت میں ہائیکورٹ پیش ہوں جبکہ چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بریف کرنے کا حکم دیا۔
ایف آئی رپورٹ پیش کرے
جسٹس بابر ستار کی جانب سے جاری حکنمامے میں کہا گیا کہ دوران سماعت ’’ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی ، اٹارنی جنرل نے کہا تمام شہریوں کی پرائیویسی اور حقوق کا تحفظ ضروری ہے، آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر کس نے ریلیز کیں؟ اس بارے ایف آئی اے نے جواب کے لیے مہلت طلب کی ‘‘ ۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ ’’ ایف آئی اے آڈیو لیکس شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل کیساتھ رپورٹ پیش کرے ، ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ ‘‘۔
آڈیو لیکس کن اکاؤنٹس سے شیئر ہوئیں، آئی بی رپورٹ پیش کرے
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ ’’ انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) نے وزارت دفاع کے ذریعے آڈیو لیکس پر اپنی رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی معلومات کے سورس کا تعین کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔
انٹیلی جنس بیورو انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرے کے آڈیو لیکس کن اکاؤنٹس سے شیئر ہوئیں۔
غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی آڈیو شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل جمع کرائیں اور ڈی جی آئی بی بتائیں کہ پاکستان میں شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے؟ ، یہ بھی بتائیں کہ کیا ریاست پاکستان کے پاس غیر قانونی سرویلنس سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے؟۔
چیئرمین پی ٹی اے عدالت کو بریف کریں
حکمنامے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی اے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بریف کریں اور بتائیں کہ موبائل فون صارفین کی کالز اور ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟، چیئرمین پی ٹی اے اور ممبرز پی ٹی اے رپورٹ کیساتھ اس کے درست ہونے کا بیان حلفی جمع کرائیں۔
حکمنامے کے مطابق عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام موبائل فون آپریٹرز کو بھی فریق بنا کر جواب طلب کیا جائے۔
ٹیلی کام آپریٹرز کو بھی نوٹس جاری
عدالت نے کیس میں تمام ٹیلی کام آپریٹرز کو بھی نوٹس جاری کیا اور حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ٹیلی کام آپریٹرز لائسنس میں ٹیلی فون کالز کو سننے یا ریکارڈ کرنے کے لیے قانونی طور پر مداخلت پر رپورٹ پیش کریں۔
حکنامے میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی اے، انٹیلی جنس ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ اس متعلق خط و کتابت سے آگاہ کریں اور بتائیں کہ کسی بھی ریاستی اتھارٹی سے اپنے صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔