سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں دہشت و خون کی ہولی کھیلنے والے بھارتی اور ان کے آلہ کار مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کی بے تخاشہ خلاف ورزیاں کیں جو منظر عام پر نہ آسکیں۔
پاکستان نیوی کے غازی ایڈمرل (ر) شاہد کریم اللہ 1971ء کے مشرقی پاکستان میں حالات اور آب بیتی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب شیخ مجیب الرحمان نے حکومت پاکستان کیخلاف بغاوت کا اعلان کیا تو پاکستان آرمی کو مشرقی پاکستان کے شہروں سے لیکر سرحدی علاقوں تک کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ اس سارے عمل کے دوران یقیناً غیر ارادی طور پر جانی اور مالی نقصان بھی ہوا مگر نقصان کا تخمینہ اس حد تک نہیں تھا جیسا کہ آج اسے نسل کشی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
ایڈمرل (ر) شاہد کریم اللہ نے کہا کہ جب میں وہاں پہنچا تو بتدریج دہشتگرد مکتی باہنیوں کا قیام عمل میں آیا، یہ دہشتگرد مکتی باہنی کون تھے؟ یہ وہ تھے جنہیں بھارت کی جانب سے مکمل تربیت فراہم کی گئی تھی، ان دہشتگرد مکتی باہنیوں وہ بنگالی بھی شامل تھے جن کی بھارت کے ہاتھوں ذہن سازی کی گئی اور ان میں اکثریت نوجوان تھے جو سرحد عبور کرکے بھارت گئے اور وہاں کیمپوں میں ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہی دہشتگرد مکتی باہنیوں نے مغربی پاکستان کے لوگوں اور بالخصوص بہاریوں کا قتل عام کیا، ایڈمرل (ر) شاہد کریم اللہ نے کہا کہ ستمبر 1971 ء میں بھارتی آرمی کے لوگ پاکستان آرمی کے یونیفارم پہن کر مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے یہ وہ موقع تھا جہاں سے مسئلے کا آغاز ہوا۔
ایڈمرل (ر) شاہد کریم اللہ نے مزید کہا کہ اس جنگ کو گزرے 52سال ہو گئے مگر اب بھی پاکستان آرمی پر قتل عام کا الزام لگایا جا رہا ہے، جب کسی بھی اجتماعی قبر اور قتل عام کا ثبوت ہی پیش نہیں کیا گیا تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ قتل عام پاکستان آرمی نے کیا؟میں آپ کو پوری ذمہ داری کے ساتھ بتاتا ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا، پاکستان آرمی کی جانب سے کسی طرح کی بھی نسل کشی نہیں کی گئی بلکہ بعد میں حکومت مخالف بنگالیوں کی جانب سے ان تمام بنگالیوں کو مار دیا گیا جن کی ذرا برابربھی پاکستان کیساتھ ہمدردی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شرمیلا بوس ایک بھارتی شہری اور بنگالی ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں صحیح حقائق بیان کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ پاکستان آرمی پر جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔