اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ( ن ) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں بری کر دیا۔
منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سزا کے خلاف اپیل منظور کرلی اور نواز شریف کو بری کر دیا۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال سزا سنائی تھی،تاہم، اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سماعت کا احوال
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران قائد ( ن ) لیگ بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صرف زیر کفالت کے ایک نکتے پر بات کرنا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہوگئے ہیں، تاہم، وکیل نے کہا کہ میں صرف ایک نکتے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے نوازشریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ استغاثہ کے اسٹار گواہ واجد ضیاء نے شواہد نہ ہونے کا اعتراف کیا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیر کفالت کون تھے؟ ، امجد پرویز نے بتایا کہ بے نامی کی تعریف سے متعلق مختلف عدالتی فیصلے موجود ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر کہا گیا کہ بار ثبوت نواز شریف پر منتقل ہوگیا ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ پانامہ کیس میں حسین نواز کی متفرق درخواستوں کے فیصلے پر انحصار کیا گیا، درخواستیں تسلیم کر لیں تب بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نوازشریف مل مالک ہیں، انہی متفرق درخواستوں پر ٹرائل کورٹ نے بھی انحصار کیا ہے، ٹرائل کورٹ نے ان متفرق درخواستوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔
وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام ہو تو شریک ملزم کے بیان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، حسین نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جائیداد کا والد سے تعلق نہیں، حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو پر انحصار کیا گیا ہے، نوازشریف کی قومی اسمبلی میں تقریر پر بھی انحصار کیا گیا۔
مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے
امجد پرویز نے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں ہے کہ مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے، فیصلوں کے مطابق مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں، فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے نہ کہ ملزم پر، ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا، یہی قانون اثاثوں کے مقدمات میں بھی لاگو ہوا ہے۔
وکیل نے کہا کہ ملکیت کو استغاثہ نے ثابت کرنا تھا، استغاثہ نے ہی عوامی عہدہ رکھنے والا ثابت کرنا تھا، استغاثہ نے آمدن سے زائد اثاثے کو ثابت کرنا تھا، نوازشریف کیخلاف زبانی یا دستاویزی کوئی شواہد نہیں، بے نامی کا بار ثبوت تو ملزم پر منتقل ہوتا ہی نہیں۔
امجد پرویز کے دلائل مکمل
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن نے آمدن اور اثاثوں کی قیمت بتانا تھی، استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ تو زیر کفالت ہیں، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ بے نامی جائیداد بنائی گئی، اگر کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تو آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔
نیب کے پراسکیوٹر کے دلائل کا آغاز
نیب کے پراسکیوٹر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی، 28 جولائی کے فیصلے کے بعد نیب نے اپنی تفتیش کی، اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے 2، 3 طریقے ہی ہوتے ہیں، ہم نے جو شواہد اکٹھے کئے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، ریکارڈ میں 161 کے بیانات بھی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر کی جانب سے نواز شریف پر عائد فرد جرم کے کچھ حصے بھی پڑھے گئے۔
نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان کے معلوم ذرائع لکھے، نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کی فرد جرم عائد ہوئی، ایس ای سی پی، بینک اور ایف بی آر کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں، پہلے بتائیں العزیزیہ میں کتنے پیسے اور کیسے بھیجے ؟ کب فیکٹری لگی ؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے، پاکستان میں موجود شواہد اکٹھے کئے، بیرون ملک شواہد کے حصول کے لیے ایم ایل اے لکھے گئے ،
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کن شواہد سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں، جائیدادوں کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہوگی ؟۔
بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی؟ نوازشریف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟جس پر پراسیکوٹر نے کہا کہ ثبوت میں دستاویز ان کی اپنی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کس کے حوالے سے دستاویز ہے؟ ، آپ نے پچھلی سماعت پر کہا تھا کہ جج کے حوالے سے تعصب کا معاملہ ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج کی برطرفی کے بعد اس فیصلے پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے۔
نیب کی ریفرنس ٹرائل کورٹ کو بجھوانے کی استدعا
نیب پراسیکیورٹر نے استدعا کی کہ العزیزیہ ریفرنس ریمانڈ بیک کردیا جائے تاہم، عدالت نے کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ میرٹ پر کتنی دیر میں دلائل مکمل کریں گے؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیا نے تجزیہ کیا کہ نواز شریف ہی اصل مالک ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واجد ضیا تو خود مان رہے ہیں کہ ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، تاہم، پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمارا کیس ہی واجد ضیا کے تجزیے کی بنیاد پر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس دستاویز سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، مفروضے پر تو کبھی بھی سزا نہیں ہوتی۔