مقبوضہ کشمیر بھارتی ریاستی جبر اور ظلم و ستم کی ایسی بھیانک تصویر بن چکا ہے کہ جہاں جینا جرم اور موت ہی نجات نظر آتی ہے۔
کلگام کے علاقے میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ اس سفاکی کی ایک اور دردناک مثال ہے، جہاں ایک نوجوان، امتیاز احمد ماگرے، مسلسل آپریشنز، ریاستی جبر، اور زندگی کی تمام امیدوں کے چھن جانے کے بعد دریائے جہلم میں کود کر زندگی کا چراغ گل کر گیا۔
بھارتی قابض افواج روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں سرچ آپریشنز اور گھروں پر چھاپے مار رہی ہیں۔ رات گئے دروازے توڑ کر نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا ہے، بزرگوں کی توہین کی جاتی ہے اور خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔ ان مسلسل مظالم نے کشمیریوں کو ایک ایسی نفسیاتی جنگ کا شکار بنا دیا ہے جہاں نہ نیند محفوظ ہے، نہ جاگنا آسان ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ سمیت دنیا کے متعدد ادارے بھارتی مظالم پر تشویش کا اظہار تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات سے گریزاں ہیں۔ اس خاموشی نے بھارت کو اور زیادہ بے خوف کر دیا ہے، اور مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔
امتیاز ماگرے کی خودکشی صرف ایک شخص کا انجام نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کی اجتماعی بے بسی اور مایوسی کا عکس ہے۔ مسلسل نگرانی، ڈرونز کی پرواز، گھروں کا محاصرہ، اور ہر لمحہ موت کے سائے میں جینے کا تصور کشمیری نوجوانوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر چکا ہے۔ ان کے لیے خودکشی اب احتجاج کا آخری اور واحد راستہ رہ گیا ہے۔
5 اگست 2019 کے بعد سے 995 کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 2465 افراد شدید زخمی ہیں۔ صرف اپریل 2025 میں 11 کشمیریوں کو زندگی سے محروم کیا گیا۔ آزادی کے نام پر بھارت نے کشمیریوں سے نہ صرف ان کی زمینی شناخت چھینی بلکہ ان کے سر سے چھت، روزگار، تعلیم، اور جینے کی امید تک چھین لی۔
بھارتی ریاستی دہشتگردی کے خلاف اگر آج دنیا خاموش رہی تو یہ خاموشی تاریخ کا سیاہ باب بن جائے گی۔ امتیاز جیسے نوجوانوں کی موت پر بھارت سوال کرتا ہے کہ عوام ہمارے ساتھ کیوں نہیں؟ یہ سوال نہیں، ایک سفاک طنز ہے۔ کشمیریوں کو جبر، تشدد اور موت کی راہوں پر دھکیل کر پھر ان سے وفاداری کی توقع رکھنا ایک فرعونی رویہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آج انسانیت سسک رہی ہے، نوجوان خودکشی کو نجات سمجھ رہے ہیں، خواتین خوف میں زندگی گزار رہی ہیں اور بزرگ اس آس میں جی رہے ہیں کہ شاید کبھی دنیا جاگے گی۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ الفاظ سے آگے بڑھ کر اقدامات کرے، ورنہ کلگام جیسے واقعات معمول بن جائیں گے اور بھارت کی بربریت انسانیت کا منہ چڑاتی رہے گی۔