اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ نئی نسل نے ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لانی ہے۔
نیشنل لرننگ اینڈ شئیرنگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ دنیا میں آئیڈیاز پر بات ہو رہی ہے مگر ہمارے ہاں قوانین بن چکے ہیں صرف عملدرآمد نہیں، ٹیکنالوجی کے ذریعے صنفی تشدد کے تدارک کے قوانین بنا دیئے گئے، میری عمر کے لوگ اب نہیں سیکھ سکتے، نئی نسل نے ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لانی ہے ہم تو موبائل میں ای میل کاپی پیسٹ نہیں کرسکتے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ جسٹس مشیرعالم نے سپریم کورٹ کے کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ہمیں ٹیکنالوجی سکھائی، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہی 25 کروڑ عوام کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم ونگ کے پاس 15 لیب ہیں جن میں صرف دو خواتین ہیں، ہر سطح پر ٹیکنالوجی کا استعمال ہوگا تو ٹیکنالوجی سے صنفی تشدد کا تدارک ممکن ہوگا، اگر ہم یہ دیکھیں کہ ملزمان بری کیوں ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ سزا کسے ہوتی ہے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ جج چیمبر میں بیٹھ کر ایک ہی طرح سے سوچنا شروع کر دیتا ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مشترکہ مشقیں ہونی چاہیں تا کہ جج کا وژن وسیع ہو، جو بھی جماعت حکومت میں آتی ہے وہ اپنے منشور کے حساب سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا پاکستان مین ریجنل دفتر نہیں ہے اور شکایات کا ازالہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت میں پنجاب فرانزک لیب بنی، اس وقت صنفی تشدد پر حکومت سندھ کی پالیسیز مثالی ہیں، نیشنل فرانزک اتھارٹی کا قیام ہو رہا ہے اور اس کیلئے سیاسی کوشش چاہیے۔