سپریم کورٹ نے تبادلہ ہو کر اسلام آباد ہائی کورٹ آنے والے ججز کو فوری کام سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے 5 ججز کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ججز سینیارٹی تنازع کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی۔ عدالت نے ججز کو فوری کام سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر ، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف کو بھی نوٹس کر دیا۔
وکیل درخواستگزار نے عدالت کو بتایا کہ 18 اپریل کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے، عدالت حکم امتناع جاری کرے تاکہ کیس متاثر نہ ہو۔ عدالت نے کہا کہ ہم کیس کی آئندہ سماعت 17 اپریل کو رکھ رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے پانچ مختلف درخواستیں موجود ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سنیارٹی کیا ہو گی؟ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سنیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کیا سنیارٹی پرانی ہائی کورٹ والی چلے گی؟ دوسرا سوال ہے کیا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سنیارٹی شروع ہو گی؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سنیارٹی میں تبدیلی پر؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت ہوا وہ پڑھ دیں، منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو اس کی رضامندی ضروری ہے، دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازمی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی بھی لازم قرار دی گئی ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پرہو سکتا ہے ہمارا اعتراض یہ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا جاتا وہاں تو عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں، آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہوبھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئےحلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی، جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لےکر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔
ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا مسترد
عدالت نے ججز تبادلہ کا ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا مسترد کردی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کون سا ریکارڈ منگوانا چاہتے ہیں؟ کیا ہائیکورٹس کا ریکارڈ منگوانا ہے یا ایوان صدر کا؟ ججز تبادلہ کا نوٹیفکیشن تو لگا ہوا ہےاور کون سا ریکارڈ منگوانا ہے؟ اگر ریکارڈ میں تبادلے کا طریقہ کار ٹھیک ہوا تو کیا درخواست واپس لے لیں گے؟۔
ججز تبادلے پر اہم سوالات
جسٹس نعیم اختر افغان نے ججز تبادلے پر اہم سوالات اٹھا دیئے کہا جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفرکے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہیں کیے گئے، عدالت نے جوڈیشل کمیشن ،صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور اسلام آباد ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹسزجاری کردیئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا اسکوپ موجودہے؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائی کورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری" کا ذکر آتا ہے۔