سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ ریمارکس، خواہ تنقیدی ہوں یا تعریفی، مستقبل میں کسی فورم پر حتمی یا لازم نہ سمجھے جائیں۔
سپریم کورٹ نے سانحہ 9 مئی مقدمات کی دوسرے جج کو منتقلی کی پنجاب حکومت کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی نے جاری کیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق ریاستی اہلکاروں کے طرز عمل پر چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ریمارکس انتظامی دائرہ اختیار میں آتے ہیں تاہم تبصرے ذاتی نوعیت کے ہوں تو وہ آئندہ کارروائیوں پر اثرانداز نہیں ہوں گے، ریمارکس، خواہ تنقیدی ہوں یا تعریفی، مستقبل میں کسی فورم پر حتمی یا لازم نہ سمجھے جائیں۔
سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد کے فیصلے اور اقدامات کو درست قرار دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو آرٹیکل 203 کے تحت عدالتی افسروں کو انتظامی مداخلت سے بچانے کا آئینی اختیار حاصل تھا، کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے میں عدلیہ کے سربراہ کا درجہ رکھتا ہے۔
فیصلے کے مطابق صوبائی چیف جسٹس جوڈیشل افسران کی شکایات پر کوئی کارروائی نہ کرنا اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے خلاف ریفرنس ناکافی شواہد کی بنا پر مسترد کیا گیا، عدالت نے مقدمات منتقلی کی درخواست شواہد کی کمی کے باعث مسترد کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریاستی اہلکاروں کے طرز عمل پر چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ریمارکس انتظامی دائرہ اختیار میں آتے ہیں، تبصرے ذاتی نوعیت کے ہوں تو وہ آئندہ کارروائیوں پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج پر تعصب کا الزام ثابت نہ ہو سکا، ایڈمنسٹریٹو جج نے ریفرنس مسترد کر دیا، چیف جسٹس کا منتقلی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنا بالکل درست تھا، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالتی افسران کو تحفظ دینا اپنا آئینی فریضہ سمجھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریمارکس، خواہ تنقیدی ہوں یا تعریفی، مستقبل میں کسی فورم پر حتمی یا لازم نہ سمجھے جائیں، تعریف کسی افسر کو احتساب سے استثنیٰ نہیں دیتی، تنقید ان کے کردار پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے سابق اے ٹی سی جج راولپنڈی اعجاز آصف کیخلاف ریفرنس دائر کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس اور مقدمہ منتقلی کی درخواست خارج کر دی تھی۔ پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔