فلسطین اور امت مسلمہ کے عنوان پر منعقدہ قومی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں اسرائیل کے غزہ میں مظالم کو منظم نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔
جمعرات کے روز ہونے والے کانفرنس میں دینی جماعتوں اور تنظیمات کے قائدین شریک ہوئے۔
اعلامیے کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر تباہ کن مظالم ڈھائے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، بچوں اور خواتین سمیت تقریباً 55 ہزار افراد شہید اور 2 لاکھ شدید زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔
غزہ کا 70 فیصد سے زائد علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا جبکہ اسپتال، تعلیمی ادارے، انتظامی اور رفاہی خدمات کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکا غیر مشروط جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر رہا ہے اور ایسی صورتحال میں شرعی اصولوں کے تحت تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
اعلامیے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے فلسطینیوں کی بحالی کے لیے فوری فنڈ قائم کرنے اور جن ممالک نے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے ان سے جنگ بندی تک تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مفتی تقی عثمانی کا کانفرنس سے خطاب
معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اہل فلسطین کی جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے لیکن افسوس کہ ہم غزہ میں معصوموں کا قتل عام دیکھ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کہ "غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کیا جائے" کی سخت مذمت کی اور کہا کہ ان کا مسلمانوں کے خلاف بغض کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
انہوں نے تمام اسلامی حکومتوں سے کھل کر کہا کہ "آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے کچھ نہیں کر پارہے اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ عالمی قوانین کی قدر، امت مسلمہ قبلہ اول کے لیے لڑنے والوں کی مدد نہیں کر سکی اور صرف قراردادوں، کانفرنسوں اور مذمتوں تک محدود ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا خطاب
سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان نے خطاب میں کہا کہ غزہ کی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم سب اکٹھے ہوں اور اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ ہم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے اس اجتماع کو روایتی نہیں بلکہ امت پر جہاد فرض ہونے کا ثبوت قرار دیا اور کہا کہ مسلمان جس طرح بھی شریک ہوسکتے ہیں، وہ جہاد کریں۔
انہوں نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ نبی پاک ﷺ نے یہود کو جزیرہ عرب سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے تاریخی حوالہ دیا کہ کچھ عرصہ قبل اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہیں تھی، 1917 میں اس کی تجویز کے وقت وہاں صرف 2 فیصد یہودی تھے۔
سربراہ جمعیت علماء اسلام نے کہا کہ اسرائیل کے وجود کے وقت پاکستان نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور اسرائیل کے پہلے صدر نے پاکستان کو ختم کرنے کا پالیسی بیان دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب بھی مشکلات ہوتی ہیں اس کے پیچھے یہودی سازش ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امت مسلمہ کے جذبات ایک جیسے ہیں لیکن رکاوٹ حکمران ہیں جو اپنے مفادات کے ویژن میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بڑے مسلم ممالک جیسے پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ممالک مل کر ایک فیصلہ کریں تو سب ان کا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے اس کانفرنس کو امت میں احساس بیدار کرنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ مسجد اقصیٰ اور جہاد کا نام لے کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔
انہوں نے حکمرانوں کو جگانے اور انہیں امت کے مطالبات سے آگاہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کا پیدائشی حق کشمیریوں اور فلسطینیوں سے نہیں چھینا جا سکتا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود وعدہ خلافی کی۔
مولانا فضل الرحمان نے 13 اپریل کو کراچی میں "اسرائیل مردہ باد" ملین مارچ کا اعلان کیا اور جمعہ کو پوری قوم سے اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے کی اپیل کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم خود آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور نہ ہی آپ کو بیٹھنے دیں گے۔