اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر مشال یوسفزئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت درخواست کی کازلسٹ منسوخ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ڈپٹی رجسٹرار کو طلب کرکے پوچھا کس قانون کے تحت کیس منتقلی کی درخواست دائر کی گئی؟ اس سے تو اچھا تھا میری عدالت کو بارود سے اڑا دیا جاتا۔ میری ذات یا اختیارات کا نہیں ہائیکورٹ کی توقیر کا مسئلہ ہے۔ مشال یوسفزئی بولیں سوچیں باہر یہ ہو رہا ہے تو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں کیا ہوتا ہوگا؟۔
بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کروانے پر مشال یوسفزئی کی توہین عدالت درخواست پر سماعت میں نیا موڑ۔ کاز لسٹ منسوخی پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار اور ایڈووکیٹ جنرل کو طلب کر لیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ چیف جسٹس آفس کی ہدایت پر کاز لسٹ منسوخ کی گئی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے حکومتی وکیل سے پوچھا کیا ریاست جج کی مرضی کے بغیر کیس منتقل کرنے کی حامی ہے؟ اس سے تو بہتر تھا میری عدالت کو بارود سے اڑا دیا جاتا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا رولز کے مطابق چیف جسٹس بھی جج کی مرضی کے بغیر کیس منتقل نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی کرپٹ چیف جسٹس آ گیا تو پھر کیا ہوگا؟ ایک پارٹی کے 3 کیسز ہوں تو کیا صرف ایک درخواست سے زیرسماعت کیس منتقل ہوسکتا ہے؟ کیا کرپشن اور اقربا پروری کے دروازے نہیں کھل جائیں گے؟ عدالت نے ان سوالات پر ایڈوکیٹ جنرل سے جواب طلب کر لیا۔
ڈپٹی رجسٹرار کو بھی تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ ایک چیز کو انا کا مسئلہ بنا کر جو کیا جا رہا ہے وہ ہائیکورٹ کے بخیے ادھیڑ دے گا۔ اگر ریاست نے انا کی جنگ جیتنے کا فیصلہ کرلیا تو میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لارجر بینچ کی کارروائی بھی عدالت کی توہین ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا کہنا تھا عوام یہ سب دیکھیں گے تو کہیں گے کہ طاقت ور لوگوں کے خلاف کیس میں جج بے بس ہیں۔ اس لیے جیف جسٹس ہی سنتے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ جج عدلیہ کی آزادی پر یہ تجاوز برداشت نہیں کریں گے۔
مشال یوسفزئی نے کہا باہر یہ کچھ ہو رہا ہے تو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں کیا کرتے ہوں گے؟ جج نے ریمارکس دیئے ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر لگ گئی ہے۔ آپ کی طرف جانے والا گائیڈڈ میزائل اب ہماری طرف آرہا ہے۔ معاملہ اس حد تک چلا گیا کہ عدالتی کمیشن کی ایک منٹ کیلئے بھی ملاقات نہیں کرائی گئی۔ یہ میری ذات یا اختیارات نہیں بلکہ ہائیکورٹ کی توقیر کا معاملہ ہے۔ یہ تمام سوالات طے کرنے کیلئے ہی کارروائی شروع کرنے جا رہا ہوں۔ مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔