پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ گزشتہ سال 285 ارب روپے ٹیکس کی مد میں دیے ۔ جون تک تنخواہ داروں سے ٹیکس وصولی پانچ سو ستر ارب تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں ملازمت پیشہ طبقہ ٹیکس دینے والا تیسرا بڑا شعبہ بن گیا۔ جس پر عائد ٹیکس کی شرح رواں مالی سال 35 سے 40 فیصد ہے۔ پہلے سات ماہ میں 285 ارب روپے وصولی بھی ہو چکی۔ یہ رقم گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 100 ارب روپے زیادہ ہے۔ جون 2025 تک تنخواہ داروں سے ٹیکس وصولی 570 ارب تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ میں جو انکم ٹیکس دیتا ہوں اور بجلی اور گیس کا بل دیتا ہوں 40 پرسنٹ میری تنخواہ ختم ہو جاتی ہے، اس حساب سے تو میں اپنی 60 فیصد سیلری میں گزارہ کررہا ہوں۔ تقریبا 10 ہزار ارب جو ہے انٹرسٹ پیمنٹ میں چلا جا رہا ہے تو اب چونکہ انٹرسٹ ریٹ میں کمی ہوئی ہے بڑی سگنیفیکنٹ طریقے سے ڈیڑھ سے دو ٹریلین کے بچت ہوگی گورنمنٹ کو اگر تھوڑا سا ریلیف دے دیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔
معاشی ماہرین کی نظر میں آئی ایم ایف کے طے کردہ اہداف حاصل کرنے کیلئے تنخواہ داروں کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ جبکہ ری ٹیل، ہول سیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر سیکٹرز سے کم وصولی اور ان کا غیر دستاویزی ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ ٹیکسوں کی زیادہ سے زیادہ شرح 20 فیصد تک محدود رکھنے کی سفارش بھی کر دی۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان میں جو آدمی ایک اچھی سیلری لیتا ہے اس کا ریٹ تقریبا 35 پرسنٹ ہے انڈیا میں مودی نے سارے میکسیمم ریٹ بیس کر دیا ہے یہ انڈیا نے ایک اور کام کیا ہے۔ 12 لاکھ انڈین روپیز اس کو زیرو ریٹ کر دیا، پاکستان کا 6 لاکھ روپے کا ٹیکس ہے تو یہ تو اپ نے پاکستان کے ساتھ ظلم کیا ہوا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں ماہانہ 60 ہزار کے بجائے ایک لاکھ 20 ہزار روپے آمدن تک ٹیکس چھوٹ ہونی چاہئے۔ بنیادی شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر12 فیصد پر آچکی۔ قرضوں پر سود ادائیگی کی مد میں ہونے والی بچت ریلیف پر خرچ کی جائے۔