فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانے کا حکم واپس لے لیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کیا دھماکا کرنیوالے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دہشت گردی کا حملہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے، پھر کچھ کا ٹرائل عام عدالتوں میں اور کچھ کا ملٹری کورٹس میں کیوں؟۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانے کا حکم واپس لے لیا گیا، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔
خواجہ احمد حسین نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ کے تمام پانچ ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے، ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ آپکو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اکسیویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاجواز کی گئی، اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس میں تو اسپیڈی ٹرائل کیا جاتا ہے، پندرہ دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، خواجہ احمد حسین نے دلیل دی کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مکالمہ کیا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغواء کیا گیا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو،جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی زیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، گر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔
خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے،
خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی علی کیخلاف ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیاء الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاء الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغواء کر لیا گیا تھا، اغواء کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کی ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اس کیلئے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگے، اس دوران سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔
دوران سماعت آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی نظرثانی واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے، سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل شروع کردیے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بنچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا، میری استدعا ہے پلیز مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں، میرے موکل کو بیس ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکمنامے کیخلاف نظرثانی بھی دائر رکھی ہے۔
خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ استدعا ہے کہ جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر موثر ہو چکی ہے، آئینی بینچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کیا کہ ٹھیک ہے ،عدالت نے نظرثانی واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی
آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس کو عائد کیا گیا جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے متفرق درخواست دائر کی تھی، درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک ملٹری کورٹس کیس پر کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی تھی، آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست تاخیری حربہ قرار دی تھی۔
آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو بیس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
سلمان اکرم راجا بھارت میں اگر کسی واقعہ میں فوجی اور سویلین دونوں ملوث ہوں تو ٹرائل سویلین عدالت میں چلتا ہے، ملٹری کورٹس ایک طرح کی ایگزیکٹو عدالتیں ہیں، 103 افراد کو ملٹری ٹرائل کیلئے کیسے لے کر جایا گیا، وجوہات سامنے نہیں آئیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ ہمارے سامنے معاملہ ہے ہی نہیں، سلیمان اکرم راجہ نے کہا کہ کمانڈنگ افسر کو سویلین کی حوالگی سے قبل جوڈیشل مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے تھا، مجھ پر اٹھارہ کیسز ہیں، اگر سپریم کورٹ آبزرویشن دے تو کل میں یہاں پیش ہو کر دلائل دے دونگا،
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم آبزرویشن نہیں دے سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ وہاں التوا کی درخواست دائر کر دیں۔
کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پوری دنیا میں سویلین کا ملٹری ٹرائل آئین کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، خواجہ حارث نے ایف بی علی کیس کا جو مطلب نکالا اس پر حیرانی ہوئی، ایف بی علی کیس نہیں کہتا بنیادی آئینی حقوق کا اطلاق آرمی ایکٹ کی دفعات پر نہیں ہوتا، ایف بی علی کیس اس کے بالکل برعکس بات کر رہا ہے، یوں بھی آئین میں آرٹیکل 175 تین آچکا ہوا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175 تین 1987 میں آیا اس کے بعد ایگزیکٹو کورٹ کی گنجائش ہی نہیں، آرٹیکل 175 تین کے بعد ملٹری کورٹس والی تفریق پیدا کی ہی نہیں جا سکتی تھی، ایک جیسی ایف آئی آر مگر کچھ لوگوں کی کسٹڈی فوج کو دے دی گئی.
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ وہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ معاملہ بالکل اس عدالت کے سامنے موجود ہے، کسٹڈی دینے کے آرڈرز اور کمانڈنگ آفیسر کی درخواست اس عدالت کے سامنے موجود ہے۔