بینچز اختیار سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے سوال کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا؟، آج ہی تحریری جواب دیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض اٹھادیا، جس پر عدالت نے خواجہ حارث اور احسن بھون کو بھی معاون مقرر کردیا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے اس کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے ہی اگر کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، ہمارا مقصد کسی پر توہین لگانا نہیں، جاننا چاہتے ہیں یہ سب کیوں ہوا؟، میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن ہوں، آج تک ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی جس میں دیکھا جائے کون سا کیس کہاں چل رہا، کمیٹی کا اختیار صرف کیس لگنے سے پہلے تک ہے۔
سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل نے حامد خان اور منیر اے ملک سے معاونت لینے پر اعتراض اٹھا دیا، جس پر عدالت نے خواجہ حارث اور احسن بھون کو بھی معاون مقرر کردیا۔
اٹانی جنرل نے کہا کہ عدالتی معاونین 26ویں ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں، توہین عدالت کیس میں عدالتی معاون مقرر ہونا پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ توازن قائم کرنے کیلئے آپ کے تجویز کردہ نام بھی شامل کرلیتے ہیں۔ منصور عثمان انور نے کہا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، جس پر عدالت نے خود ہی خواجہ حارث اور احسن بھون کو بھی عدالتی معاون مقرر کردیا۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی تجویز دیدی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ، میں بھی کمیٹی کا رکن ہوں، کبھی کسی چلتے ہوئے کیس کا جائزہ لینے کیلئے اجلاس نہیں بلایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے سوال کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا؟، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو آج ہی تحریری جواب دینے کی ہدایت کردی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ہم توہین کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کرسکتے ہیں؟۔ منیر اے ملک نے کہا کہ کمیٹی اختیار پر بالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کرسکتی ہے، میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کرسکتی، اب جوڈیشل آرڈر کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدلا جاسکتا ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے مزید کہا کہ یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے، یہ معاملہ فل کورٹ سے ہی ہمیشہ کیلئے حل ہوسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میں بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن ہوں، آج تک ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی جس میں دیکھا جائے کون سا کیس کہاں چل رہا؟، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی یہ بھی نہیں دیکھتی کہ کیس میں کیا ہورہا ہے؟، کمیٹی کا اختیار صرف کیس لگنے سے پہلے تک ہے۔
حامد خان نے کہا کہ انتظامی فورم عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ کسی کیس میں 9رکنی بینچ بنانے کی ہدایت کرسکتی ہے؟، حامد خان نے کہا کہ اگر عدالت 9 رکنی بینچ بنانے کا حکم دے تو عمل کرنا ہوگا، آئین میں ہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دیگر ججز ہوں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ہمارا شمار دیگر ججز میں ہوتا ہے؟۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا اب تو شاید ہم دیگر ججز ہی رہ گئے ہیں۔ جسٹس منصور نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ویسے ہی پوچھ رہا ہوں کیا ہم ججز کا حصہ ہیں؟، اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی بالکل آپ ججز کا حصہ ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ویسے ہی پوچھ رہا تھا کیونکہ آج کل پتا نہیں چلتا۔