عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے حصول کیلئے وزارت خزانہ ہوم ورک شروع کر دیا۔ قرض پروگرام کے پہلے اقتصادی جائزے کیلئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کی جائیں گی۔
دستاویز کے مطابق دسمبر تک 6 ہزار 9 ارب ،مارچ2025 تک 9 ہزار 168 ارب ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر ہے، کسی کاروباری شعبے کو نئی ٹیکس ایمنسٹی یا رعایت نہ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق سرکاری افسران و اہل خانہ کے تمام اثاثے ڈکلیئر کیئے جائیں گے، اس مقصد کیلئے فروری 2025 تک سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور سمیت لارج ٹیکس یونٹس میں رسک مینجمنٹ پر عمل ہوگا۔
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو 3 ماہ کی درآمدات کے مساوی تک بڑھایا جائے گا، جولائی 2025 تک گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ رپورٹ شائع کی جائے گی۔ معاہدے کے مطابق صوبائی زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی شروع کی جائے گی، دستاویز
نئے مالی سال کے بجٹ میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر 5 فیصد ڈیوٹی لگے گی، بی آئی ایس پی کے مستحقین کے وٖظیفے میں 3 ہزار روپےاضافہ کیا جائے گا، مستحقین کے وظیفے میں سالانہ مہنگائی کے تناسب سے ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کسی قسم کی نئی ضمنی گرانٹ جاری نہیں ہوگی، توانائی شعبے کے واجبات 417 ارب، ٹیکس ریفنڈز24 ارب تک محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ 2 ڈسکوز کی نجاری کیلئے جنوری تک تمام پالیسی اقدامات مکمل کئے جائیں گے۔
مختلف سرکاری اداروں میں بتدریج رائٹ سائزنگ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، جنوری 2025 تک گیس سیکٹر میں کیپٹو پاور پلانٹس میں گیس کا استعمال بند کیا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک سے حکومت کو قرض کی زیرو فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کا مشن 2025 کے آغاز میں ہی پاکستان کا دورہ کرے گا۔