اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ون کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں میرٹ پر سننے کا فیصلہ کرلیا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے توشہ خانہ ون کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹرعلی ظفر اور دیگرعدالت میں پیش ہوئے۔
قومی احتساب بیورو ( نیب ) کی جانب سے امجد پرویز ، رافع مقصود اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کے دوران کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ انسان کو زیادہ شریف نہیں ہونا چاہیے، مجھے اپنے موکل سے اپیلوں سے متعلق ہدایات لینی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپیلیں ہیں، آپ نے دلائل نہیں دینے تو ہم جوڈیشل سائیڈ پر دیکھیں گے۔
دوران سماعت نیب کی جانب سے کیس کو ٹرائل کورٹ واپس منتقل کرنے کی استدعا کی گئی اور پراسیکیوٹر امجد پرویز نے سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا ریمانڈ بیک فیصلے کا حوالہ دیا جبکہ بیرسٹر علی ظفر نے ریمانڈ بیک کی استدعا کی مخالفت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جو بھی کرنا ہے عدالت اپیلوں کو میرٹ پر ہی سنیں گی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ علی ظفر صاحب ! انہوں نے 7 رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیا تو اس میں کیا ہوا تھا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے کیس ریمانڈ بیک کیا اور ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو بری کیا، مگر اس وقت حکومت تبدیل ہوگئی تو فیصلہ الگ آیا، اگر ہماری حکومت تبدیل ہوئی تو پھر؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے کیس سے متعلق دلائل میں کہا کہ جس بندے سے تخمینہ لگوایا گیا وہ گاڑیوں کے سپیئرپارٹس کی دکان پر کام کرتا ہے، اگر کچھ غلط ہو رہا تھا تو انکو ٹرائل کورٹ میں ہی موقف اپنانا چاہیے تھا کہ غلط ہو رہا ہے۔
بعدازاں، عدالت عالیہ کی جانب سے سزا کے خلاف اپیلیں میرٹ پر سننے کا فیصلہ کیا گیا اور آئندہ سماعت پر بیرسٹر علی ظفر میرٹ پر دلائل دیں گے جبکہ کیس کی مزید سماعت 27 نومبر کو ہوگی۔