اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ون کیس میں سزا کیخلاف بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سماعت 21 نومبر تک ملتوی کردی۔
جمعرات اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ون کیس میں سزا کیخلاف بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جس کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے سزا کالعدم قرار دے کر کیس ماتحت عدالت کو دوبارہ بھیجنے کی استدعا کردی۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سزا کالعدم قرار دے کر کیس ریمانڈ بیک کر دیا جائے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پہلے بیرسٹر علی ظفر کو سن تو لینے دیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ یہ ایک جیل ٹرائل تھا، 29 جنوری کو جرح کا حق ختم کیا گیا، 30 جنوری کو بشریٰ بی بی کا 342 کا بیان رات 11 بجے ریکارڈ کیا گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت بانی پی ٹی آئی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا؟ جس پر علی ظفر نے بتایا کہ کہ ثبوت دوں گا،31 تاریخ کو سوال نامہ بانی پی ٹی آئی کو دیا گیا۔
عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نیب کی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں تو ہم میرٹ پر فیصلہ کردیں گے، پھر ٹرائل کورٹ میں ہوئی غلطیوں کو ایک طرف رکھ کر میرٹ پرفیصلہ کر دیں گے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ میں اس حوالے سے اپنی گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ 2 ہی طریقے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ امجد پروی کی بات مان لیں،یا آپ استدعا کر سکتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ میں کیس فرد جرم سے دوبارہ شروع ہو، اگرآپ یہ دونوں نہیں مانتے تو ہم پھر تکنیکی خرابیوں کی طرف جائیں گے ہی نہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں سزا کا یہ فیصلہ برقرار رہ ہی نہیں سکتا۔