پاکستان میں غیر رجسٹرڈ وی پی این پر پابندی عائد کرنا ایک اہم قدم ہےجو ملک کی سکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس پابندی سے غیر قانونی اور غیر محفوظ وی پی این سروسز کا استعمال روکنے میں مدد ملے گی، جو اکثر دہشت گردی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ ہوسکتی ہے۔ غیر رجسٹرڈ وی پی این کی مدد سے افراد اپنے آن لائن سرگرمیوں کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی مانیٹرنگ میں مشکل پیش آتی ہے ۔
آئی ٹی ماہرین کے مطابق اس پابندی کے ذریعے پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنایا جا سکے گا، کیونکہ غیر رجسٹرڈ وی پی این کو استعمال کرنے والے افراد یا گروہ ملک کے قوانین سے بچنے کے لیے انٹرنیٹ پر مختلف غیر قانونی سرگرمیاں کرتے ہیں۔ وی پی این کے ذریعے پر خطر مواد تک رسائی حاصل کرنا اور اس کا شیئرنگ کرنے کی صورت میں قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، جنہیں اس پابندی کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہرین کے مطابق غیر رجسٹرڈ وی پی این کے ذریعے بعض افراد پرائیویسی کے نام پر اپنے خلاف غیر قانونی کارروائیاں کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس پابندی کی مدد سے حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنا سکے گی کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیاں قومی مفادات کے مطابق ہوں اور عوامی تحفظ کی ضمانت ہو۔ اس طرح کی حکمت عملی سے ملک میں موجود سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر جھوٹے پروپیگنڈے اور انتشار کو بھی روکا جا سکے گا، جو عوامی امن و سکون کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
آئی ٹی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے سائبر اسپیس میں بہتری اور تحفظ کے لیے یہ قدم ایک سنگ میل ثابت ہو گا، کیونکہ غیر رجسٹرڈ وی پی این کی وجہ سے نہ صرف ریاستی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ عام شہریوں کے ڈیٹا کی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس پابندی کے ذریعے حکومت ایک محفوظ اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پاکستان کے انٹرنیٹ ماحول کو بہتر بنا سکے گی۔
مذہبی اور سماجی ماہرین پاکستان میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد دیکھنے کی شرح میں بھی تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث پاکستان دوسرے نمبر پر ہے اور اسی وجہ سے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد کی کھپت تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس سے نوجوانوں اور بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آزادی کے باوجود، پاکستان میں اس قسم کے مواد کی رسائی کو محدود کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو غیر قانونی مواد کے پھیلا کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور موثر نگرانی کے نظام کی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی اور اخلاقی مسائل کی روک تھام کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں انٹرنیٹ سیکیورٹی اور ناپسندیدہ مواد کی روک تھام کے لیے تکنیکی حل اور سوشل ذمہ داری کا نفاذ بھی ضروری ہے۔
پاکستان نے سائبر سیکیورٹی کے شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے اور حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں سائبر حملوں سے بچاؤ کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت نے سائبر کرائمز کے خلاف سخت قوانین وضع کیے ہیں اور مختلف اداروں کو سائبر حملوں سے نمٹنے کے لیے جدید تربیت فراہم کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان نے اپنے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز متعارف کرائیں، جس کے نتیجے میں سائبر سیکیورٹی کے شعبے میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ نیشنل سائبر سیکیورٹی ٹاسک فورس کی تشکیل کے ذریعے حکومت نے سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط نظام قائم کیا ہے، جو عالمی سطح پر پاکستان کی سائبر سیکیورٹی کی درجہ بندی کو بہتر بنانے میں مدد دے رہا ہے۔
سائبر سکیورٹی کے شعبے میں ترقی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان کو2024 کی عالمی سائبر سیکیورٹی انڈیکس رپورٹ میں بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین (ITU) کے Tier 1 میں شامل کیا گیا ہے۔Tier 1، جو پانچ درجات میں سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور "رول ماڈلنگ" کے طور پر لیبل کیا گیا ہے، اس کا سکور 95 سے 100 کے درمیان ہوتا ہے، اور اس میں 46 ممالک شامل ہیں۔ عالمی سائبر سیکیورٹی انڈیکس کی پچھلی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی 79 تھی۔