بلوچستان کئی دہائیوں سے بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ جس میں نہ سازش کرنے والوں کو کچھ ملا نہ بلوچستان کا کچھ بھلا ہوا، بلوچ نوجوانوں کے زہنوں میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نفرت تقسیم کی گئی کہ جیسے انکا حق مارا جا رہا ہے اور ریاست انکی سب سے بڑی دشمن ہے، بلوچ سرداری نظام کی بقا اسی سوچ میں ہے کہ بلوچ ریاست سے نبرد آازما رہیں ۔ اگر بلوچ ریاست سے صلح کر لیں گے تو سرادری نطام کی بنیادیں ہل جائیں۔
جہالت ، بے روزگاری اور بلوچ نوجوان کی سب سے بڑی دشمن ہیں ۔ یہ انہیں ملک دشمن عناصر کے پراپیگنڈے کا شکار کرتی ہے، بلوچ مدت سے لڑ رہے ہیں۔ انکی نسلوں کی نسلیں کام آ چکی ہیں مگر اب انہیں امن کی طرف آنا ہو گا، بلوچوں کی بڑی تعداد نے ریاست کے آئین کو تسلیم کیا ۔ مگر چند سرداروں نے ماضی میں ذاتی مفاد کے خاطر ریاست سے جنگ کا رستہ اختیار کیا ۔ جس کا نتیجہ صرف بلوچوں کی تباہی کی صورت میں نکلا، روس کی افغانستان میں یورش سے بہت سے لوگوں نے گریٹر بلوچستان کے مذموم منصوبے کو ہوا دی۔ مگر روس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ان شرپسندوں کی کاروائیاں دم توڑ گئیں۔
میر ہزار خان نے دو دہائیوں سے زیادہ ریاست سے جنگ کی ۔ افغانستان میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ۔ سیکیورٹی فورسز پر بے شمار حملے کیئے ۔ لیکن جب دو دہائیوں کے بعد وطن واپس آئے تو پتہ چلا کہ انکی جدوجہد بے ثمر تھی اور اسکا سب سے زیادہ نقصان بلوچوں کو پہنچا۔آخری عمر میں ہزار خان نے مفاہمت کا رستہ اپنایا ۔ جس کا فائدہ ہزار خان کو انکے علاقے کوہلو کو ، بلوچوں کو اور ریاست پاکستان کو ہوا، ہزار خان کو ساری عمر مزاحمت نے یہ سبق دیا کہ کہ کوئی بھی شرپسند گروہ چاہے وہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا، میر ہزار خان کی زندگی کا درس یہی ہے اس ملک میں رہنا ہے تو اس کے آئین کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اسکی مٹی سے محبت کرنا پڑے گی ، اسکی شہیدوں کا احترام کرنا پڑے گا ۔