سال 2024 کو الیکشن کا سال قرار دیا گیا ہے جس میں دنیا کے کئی بڑے ممالک میں انتخابات منعقد ہوئے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، برطانیہ اور اب امریکہ میں انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔
پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات اب چند ہفتوں کی دوری پر ہیں،امریکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان انتخابات کے تمام مراحل کو سمجھیں۔
ان انتخابات کو اگر چار مرحلوں میں تقسیم کیا جائے تو پہلے مرحلے میں پرائمری اور کاکس کا مرحلہ آتا ہے جس میں ووٹرز یا امریکی شہری اپنے ڈیلیگیٹس کا انتخاب کرتے ہیں ۔پرائمری کے تحت ابتدائی مرحلے میں مختلف جماعتوں کے 8 سے 10 وہ امیدوار ہوتے ہیں جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور پھر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس انتخاب میں کامیابی کے لیے امیدوار کو پارٹی کے دیگر ممبران کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ نیشنل کنونشنز منعقد کرواتی ہیں، جس میں دونوں پارٹیاں صدر اور نائب صدر کےلیے نامزدگیاں کرتے ہیں۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں جنرل انتخابات منعقد ہوتے ہیں جس میں امریکی شہری صدر کے انتخاب کےلیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
یاد رہے امریکہ میں ان ڈائریکٹ الیکشنز ہوتے ہیں ڈائریکٹ الیکشنز نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرحلہ نمبر چار میں جو کہ سب سے کمپلیکس سب سے دلچسپ مرحلہ ہے اور اس کے نتیجے میں الیکٹورل کالج تشکیل پائے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکٹورل کالج ہر ریاست کی پاپولیشن اور ان کی کانگریس میں نمائندگی کے تناسب سے تشکیل پاتا ہے، 538 ٹوٹل الیکٹرز ہیں جس میں کسی بھی صدارتی امیدوار کو 270 الیکٹرز یا ووٹ چاہیے ہوتے ہیں۔
امریکے صدر کے انتخاب میں تمام 50 ریاستوں میں زیادہ تر کی سیاسی وابستگی تو نمایاں ہیں تاہم چند سوئنگ ریاستیں ہیں جو کہ 6 سے 7 بنتی ہیں اس میں دونوں پارٹیاں یہ زور لگاتی ہیں کہ یہ ریاستیں ان کو ووٹ کریں۔ اس کے بعد چھ جنوری کو کانگرس الیکشن کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اس کے بعد نیا امریکی صدر 20 جنوری کو حلف لے لیتا ہے۔
امریکا میں انتخابات کا یہ طریقہ 16ویں صدی سے رائج ہے۔ اس دور میں اتنے لمبے دورانیے کی وجہ ذرائع نقل و حمل کا دشوار ہونا اور سفر کی دقتیں بتائی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ اب تک کی بننے والے 46 امریکی صدور میں 19 ڈیموکریٹس کے جبکہ 17 ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتے تھے امریکی صدر بننے کے لیے صرف تین بنیادی شرائط ہیں جس میں نیچرل بون سٹیزن ہونا، کم از کم عمر 35 سال ہونا اور 14 سال سے امریکہ کا رہائشی ہونا شامل ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لیے بننے والے الیکٹورل کالج پہ تنقید بھی ہوتی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک بائسٹ الیکشن سسٹم ہے جو کہ مکمل طور پہ جمہوری نہیں ہے کیونکہ اس میں الیکٹورل کالج زیادہ حاصل کرنے والا جیت جاتا ہے جبکہ تین سے چار مرتبہ امریکی تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے جس میں کم ووٹ لینے والا مگر زیادہ الیکٹورل کالج حاصل کرنے والا صدارتی امیدوار جیت گیا جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے 2016 میں 30 لاکھ کم ووٹ حاصل کیے،مگر زیادہ الیکٹورل کالج حاصل کرنے کی وجہ سے جیت گئے۔