وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ سویلینز کے ملٹری ٹرائل پر اتفاق رائے نہیں تھا، وہ ابھی پیکج کا حصہ نہیں۔ دیکھنا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام آئین کے فریم ورک میں ہے یا نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ایسی عدالتوں کا تصور موجود ہے۔
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کی تقریب سے خطاب میں وزیرقانون نے کہا کہ اتحادیوں اور ن لیگ کے اندر سویلینز کے ملٹری ٹرائل پر اتفاق رائے نہیں، دہشتگردی ختم نہیں ہوسکی، شہداکے قاتلوں کوسزائیں نہیں ملتیں۔ اپیکس کمیٹی میں عسکری قیادت نےکہا نظامِ انصاف کمزور ہے۔
اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں 60 ججز کی جگہ ہے اور 24 اسامیاں خالی ہیں۔ بولے کیا یہ گناہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں جو جج صاحب کام نہ کریں ان کا تبادلہ کردیں یا ریٹائرمنٹ دے دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر65 سال ہویا68 سال اس پرمیں اوپن ہوں، جوڈیشل کمیشن کا مستقل سیکرٹریٹ،نتیجہ خیز اجلاس ہونے چاہئیں۔ وزیرقانون نے پاکستان بارکونسل اورسپریم کورٹ بارسے تجاویز بھی مانگ لیں۔
دوسری جانب مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے وفاقی وزیر قانونی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اہم نکات پر اتفاق کرلیا۔ سپریم کورٹ بار کے جاری متفقہ اعلامیے کے مطابق آئینی پیکج پر بحث کیلئے بار کونسلز اور بارایسوسی ایشنز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ متفقہ اعلامیے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کےعلاوہ کسی کو ہڑتال کی کال دینےکی اجازت نہیں۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے جاری متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے، ترمیم آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہیے، آئینی عدالت کی تشکیل کا معاملہ وکلاء سے مشاورت کے بعد آگے بڑھایا جائےگا، آئینی پیکج کاحتمی مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنےسے پہلے وکلاء کمیٹی کودیاجائےگا۔
حتمی آئینی پیکج کے مسودے میں وکلاء کمیٹی کی آراکوشامل کیاجائےگا، آئینی پیکج کےمتعلق کمیٹی سات روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی میں سپریم کورٹ بار کے صدر اور جنرل سیکرٹری ،پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین،ایگزیکٹو کمیٹی کےچیئرمین،صوبائی بارکونسلز کے وائس چیئرمین اورایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شام ہونگے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں عدالتی فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ بارکی درخواست سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔