جماعت اسلامی کیساتھ حکومت نے مذاکرات مکمل کر لئے، حکومت نے جماعت اسلامی کے4 نکات ماننے سے انکار کردیا۔
جماعت اسلامی پاکستان کے دھرنا میں 08 اگست 2024ء رات 9:30 بجے حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور جماعت اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے پانچویں مشترکہ اجلاس میں دھرنا کے مطالبات پر حتمی مذاکرات ہوئے،اس موقع پر حافظ نعیم الرحمن صاحب، امیر جماعت اسلامی پاکستان خصوصی طور پر مذاکرات میں شریک ہوئے۔
حکومت کی مذاکراتی ٹیم میںوفاقی وزیرداخلہ سید محسن نقوی ،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطاء اللہ تارڑ موجود تھے، جبکہ جماعت اسلامی مذاکراتی ٹیم میں لیاقت بلوچ، امیر العظیم، نصر اللہ رندھاوااور فراست شاہ شامل تھے۔
08 اگست 2024ء مذاکرات کے آخری راؤنڈ میں حکومت اور جماعت اسلامی میں طے پایا کہ گذشتہ چار راؤنڈز کے مذاکرات میں جن اُمور پر اتفاق ہوا ہے اسی کے تسلسل میں حکومت درج ذیل اقدامات کرے گی۔
1۔تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کو ہر ممکن طریقے سے کم کیا جائے گا، اس کے لیے ریونیو کو بڑھایا جائے گا، جس سے fiscal base پیدا کی جائے گی اور تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کی شرح گذشتہ مالی سال کے مطابق آجائے گی، اس کے لیے حکومت اور جماعت اسلامی کی مشترکہ کمیٹی عملدرآمد کروائے گی۔
Jamaat-e-Islami's agreement with the government by Farhan Malik on Scribd
2۔حکومت نے جماعتِ اسلامی کے اِس مطالبہ کو تسلیم کیا ہے کہ بجلی کے بل ہر صورت کم ہونے چاہئیں فی یونٹ لاگت اور اُن پر لگنے والے ٹیکسز صارفین پر بڑا بوجھ ہیں حکومت نے وضاحت کی کہ یہ مجبوری ہے تاہم یقینی طور پر ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جس سے آئندہ ڈیڑھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کردی جائے گی۔
3۔حکومت نے دھرنا کے اس مطالبہ سے اتفاق کیا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ میکنزم طے کرکے جاگیرداروں اور بڑے لینڈ ہولڈرز پر انکم ٹیکس لگانے کا مؤثر نظام وضع کیا جائے گا۔
4۔تاجر دوست سکیم کے نفاذ سے پیدا ہونے والے غیرمنصفانہ نظام اور خدشات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تاجروں پر ٹیکس کا نظام آسان اور سہل الحصول بنایا جائے گا۔
5۔تاجروں، ایکسپورٹرز کے مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی NOTIFY کی جائے گی جو حکومت ، ایکسپورٹرز اور تاجروں پر مشتمل ہوگی، یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرے گی۔
6۔وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت آئی پی پیز کے معاملہ میں سنجیدہ ہے، جماعت اسلامی کا مطالبہ قومی مطالبہ ہے، اسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی، حکومت نے اسی لیے بااختیار ٹاسک فورس قائم کردی ہے جو ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی۔
7۔ماہ اگست 2024ء بجلی کے بل کی ادائیگی 15 دن کے لیے مؤخر کی جارہی ہے تاکہ صارفین کو سہولت حاصل ہو۔
جماعت اسلامی اور حکومتی وزراء کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے پانچ ادوار میںکچھ مطالبات پر بحث ہوئی لیکن ان پر اتفاق نہ ہوسکا۔
1سُود کی لعنت کو مکمل ختم کرنا تو لازم ہے ہی لیکن حکومت ابتدائی طور پر بجلی کے بِلوں میں فوری ریلیف دینے کے لیے شرح سُود میں 5 سے 10 فیصد بتدریج کمی لائے گی۔ اِس اقدام سے حکومت کوعوام کو ریلیف دینے کے لیے ہزاروں ارب روپے اضافی حاصل ہوجائیں گے۔ اِسی طرح بنکوں/ مالیاتی اداروں کی ریزرو شرح کو 25 فیصد تک کردیا جائے گا۔
2 کےالیکٹرک کا بھی فرانزک آڈٹ کیا جائے گا۔ اس کا میکنزم بنایا جائےگا اور اس کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ KE کی monopoly کو ختم کیا جائے گا۔ KE کی generation براہِ راست کی جائے گی اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے competition کو پیدا کرتے ہوئے متعدد کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا۔
3سرکاری سطح پر سیاسی، حکومتی، انتظامی اہل کاروں کے لیے گاڑیوں کا استعمال 1300 سی سی تک محدود کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔ نیز سرکاری اہل کاروں کے لیے مفت مراعات خصوصاً ذاتی استعمال کے لیے مفت پٹرول کی مراعات ختم کی جائے گی۔
4حکومت آٹا، چینی، بچوں کا دودھ اور اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسوں کا بوجھ ختم کرکے ان اشیائے ضروریہ میں عوام کو ریلیف دے ۔
خیال رہے کہ مذاکرات کے ادوار میں حکومتی ٹیم کی جانب سے وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری، وفاقی وزیر امورِ کشمیر امیر مقام، چیف وہپ طارق فضل چوہدری شریک ہوتے رہے،کمشنر راولپنڈی ڈویژن، آر پی او راولپنڈی ریجن، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ضلع نے کوآرڈی نیشن اور مہمان داری کی بہت خوب ذمہ داری ادا کی۔حکومت کی جانب سے مذاکرات کے ادوار میں ٹیکنیکل ماہرین بھی شریک ہوئے۔