پاکستانی کمرشل بینکوں میں عوام کے ڈیپازٹس 26 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے تاہم 5 لاکھ روپے سے زیادہ کے بینک بیلنس کو انشورنس کور حاصل نہ ہونے کی خبر کھاتہ داروں پر بجلی بن کر گری۔ اقتصادی ماہرین نے مارکیٹ میں پیدا ہونے والی افراتفری کا ذمہ دار اسٹیٹ بینک کو ٹھہرا دیا۔
پاکستان کے کمرشل بینکوں میں اکاونٹ ہولڈرز کا جمع شدہ سرمایہ 26 ہزار ارب روپے سے بڑھ گیا۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران ہی ان ڈیپازٹس میں 3 ہزار 356 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم بینکاری نظام میں پانچ لاکھ روپے تک کے ڈیپازٹس جمع کرانے والوں کو ہی انشورنس کور حاصل ہے۔ اس سے زیادہ مالیت کا بینک بیلنس ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین کا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں دیا گیا بیان بینک کھاتہ داروں پر جیسے آسمانی بجلی بن کر گرا۔ منفی عوامی ردعمل کے باعث اسٹیٹ بینک نے وضاحت جاری کرکے ڈپازٹس کو محفوظ قرار دے دیا۔اقتصادی ماہرین کہتے ہیں ایسے متضاد بیانات غیرضروری ہیں۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چونکہ اکنامک صورت حال ابتر ہے۔ لوگ بہت زیادہ دیر تک تین چار ماہ پہلے تک ڈیفالٹ کی بات کر رہے تھے اور لگا کہ جیسے پاکستان میں بینک ڈیفالٹ کرنے والے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں اس طرح کے بیانات افراتفری پیدا کرتے ہیں اور اس طرح کے بیانات پہلے سے جاری غیر یقینی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی بینکنگ سیکٹر میں 100 فیصد کوریج کہیں بھی نہیں ہوتی، ماہری اقتصادی امور ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایک لیول تک ڈپازٹر کی رقم کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔اگربینک ڈیفالٹ کرتا ہے تو جو گارنٹی ہے وہ انہیں پیمنٹ دیتی ہے۔ پاکستان میں سٹیٹ بینک کا ذیلی ادارہ ڈپازٹ پروٹیکشن بیورو 5 لاکھ تک تحفظ دیتا ہے جس سے 94 فیصد ڈپازٹر کور ہوجاتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے انشورنس کور کی حد کم رکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ بینکوں میں رقوم رکھنے کے بجائے اسے خرچ یا استعمال میں لائیں تاکہ معاشی سرگرمی میں اضافہ ہو۔