مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے نے معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق آرٹیکل 51 کی شق ڈی بالکل واضح ہے کہ خواتین اور اقلیتی نشستیں صرف ان جماعتوں کو دی جاسکتی ہیں جو فہرست میں شامل ہیں اور جنہوں نے ای سی پی کو فہرستیں فراہم کی ہیں۔ پی ٹی آئی نے نہ تو دفعہ 104 کے تحت مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی نے ای سی پی میں مخصوص نشستوں کے لیے چیلنج کیا تھا۔
پی ٹی آئی کا بنیادی معاملہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں اور اب ایس آئی سی کے حقدار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کرنے کے بجائے انہیں دوبارہ لکھا۔
اگر ایس آئی سی میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی امیدوار مستقبل میں دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہیں تو مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جس کا اس نے دعویٰ بھی نہیں کیا۔
سپریم کورٹ جب 185 کے تحت کسی بھی چیز کا جائزہ لیتی ہے، تو یہ عام طور پر ان درخواستوں تک محدود ہوتا ہے جو نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک پہنچتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں کے اراکین کو سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا۔
عدالت میں جن 80 ارکان کا ذکر کیا گیا وہ نہ تو عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ اسے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
یہ ایک منفرد فیصلہ ہے جو آئین سے بالاتر ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کر لیا ہے جبکہ اس کے اراکین نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔
آزاد امیدوار اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹیاں تبدیل کر سکیں گے۔ اس قسم کے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسا نیا سسٹم سامنے آئے گا جس کی قانون اور آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے فیصلے آئین و قانون کے مطابق دینے کی بجائے سیاسی جماعتوں اور انکی سوشل میڈیا ٹیموں کو دیکھ کر دئیے جا رہے ہیں۔