بجٹ میں حکومت سے سخت شرائط پوری کرانے کے باوجود عالمی مالیاتی فنڈ نے ڈور مور کا مطالبہ کر دیا۔ نئے بیل آوٹ پیکیج کیلئے زرعی شعبے کی آمدن پر ٹیکس لگانے اور لائیو اسٹاک سیکٹر کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے سرکاری اداروں میں شفافیت لانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
نئے بجٹ میں 12 ہزار 970 ارب روپے کا ریکارڈ ٹیکس ہدف مقرر کرنے، تنخواہ دار اور کاروباری طبقے پر ٹیکس بڑھانے سمیت سخت شرائط پرعملدرآمد کے باوجود آئی ایم ایف کی تسلی نہ ہوئی۔ نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے حکومت کو پھر ڈومور کہہ دیا۔
آئی ایم ایف نے سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لانے، زرعی آمدن پر 45 فیصد ٹیکس لگانے اورلائیو اسٹاک سیکٹر کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ذرائع کے مطابق زرعی آمدن پر ٹیکس صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں میں قانون سازی کے بغیر اس پر عمل ممکن نہیں۔آئی ایم ایف ماہرین نے چاروں صوبائی حکومتوں سے بھی بات چیت کرلی۔ سندھ اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں نے اصولی اتفاق کرلیا۔ مزید پیشرفت جلد متوقع ہے۔
دوسری جانب حکومت کو منافع بخش اداروں کے شیئرز خلیجی ممالک کو فروخت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومتی سطح پر شیئرز کی فروخت پر اعتراض عائد کر دیا۔ شیئرز کی فروخت میں نجکاری کمیشن آرڈیننس، پیپرا قوانین اور ایس او ایز لاء کی چھوٹ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
حکومت نے مختلف منافع بخش اداروں کی ملکیت اور اثاثے ساورن ویلتھ فنڈ میں منتقل کیئے تھے۔ ان میں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماڑی پیٹرولیم، نیشنل بینک، پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ، گورنمنٹ ہولڈنگز، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی شامل ہیں۔حکام کے مطابق ان کے شیئرز کی ممکنہ فروخت کا مقصد سرمایہ کاری کے نئے منصوبوں کیلئے وسائل پیدا کرنا ہے۔