اسلام آباد ہائیکورٹ میں شکیل تنولی کی موت کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کیلئے احتجاج کرنے والے والد اور دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران عدالت نے پولیس کو والد رفاقت تنولی کا بیان قلمبند کرنے کی ہدایت کر دی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے آپ کو پوچھنے کیلئے بلایا تھا کہ احتجاج کرنے پر بندے کون اٹھا لیتا ہے؟،آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ پولیس نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک مظاہرین سے مذاکرات کئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے مذاکرات کیلئے کسی ٹھنڈے آدمی کو نہیں بھیجا ہو گا نا، آئی جی نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف تمام دفعات قابلِ ضمانت ہیں، ہم ذاتی شورٹی پر ہی چھوڑ دینگے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے حلف لے رکھا ہے تو پولیس نے بھی اٹھا رکھا ہے، ہم نے یہ یقینی بنانا ہے کہ عوام کا سسٹم پر اعتماد بحال رہے، دو سال سے چالان جمع نہیں ہوا تو پتہ چلتا ہے سسٹم کتنا ناکام ہو چکا ۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت میں استدعا کی کہ پولیس رفاقت تنولی کا بیان بھی قلمبند نہیں کر رہی، ایس ایچ او نے کہا کہ رفاقت تنولی ہمارے پاس بیان قلمبند کرانے نہیں آیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ شوق سے کوئی سڑک پر تو نہیں نکلتا ، کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی نا، اتنی گرمی میں سڑک پر نکل آئے تو پہلے پولیس کے پاس بھی آئے ہی ہونگے، ہم سب نے جان اللہ کو دینی ہے کام ایمانداری سے کرنا ہے کسی کیساتھ زیادتی نہیں کرنی
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر قانون سب کیلئے برابر ہے تو برابری کر کے دکھائیں نا، پولیس بیان قلمبند کر لیتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی، اب بیان قلمبند کر لیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی ۔