پاک فوج کی ملک کے لئے قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فوجی جوان ہر دم ملک کی حفاظت اور بقاء کےلئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ شہدائے وطن نے اپنے خون سے اس پاک سرزمین کی آبیاری کی ہے جو تاقیامت یاد رکھی جائے گی۔
عید کے پرمسرت موقع پر شہداء کے لواحقین نے نم آنکھوں کے ساتھ انہیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ عید کے موقع پر ہمیں بحیثیت قوم اپنے ان شہداء کو فراموش نہیں کرنا چائیے جن کی بدولت ہم چین سے اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے ہیں۔
لانس نائیک عبدالمناف شہید کی والدہ نے کہا کہ عبدالمناف کے جانے کا دکھ بھی ہے اور شہید ہونے پر فخر بھی ہے، وہ اپنے وطن کی خاطر شہید ہوا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کی شہادت قبول فرمائے۔ شہید کی بیوہ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہوں۔ عبدالمناف کے بغیر ہماری یہ پہلی عید ہے اور مجھے بہت دکھ ہے کہ اس عید پہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ میرے شوہر کے بعد اب میرا بیٹا ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔
دوسری جانب سیفر ذوالفقار شہید کے بھائی نے کہا کہ میرا بھائی بھی تھا اور دوست تھا، شہید نے بہت اچھی زندگی گزاری، صوبیدار علی اصغر شہید کے بیٹے کا کہنا تھا کہ یہ عید انہوں نے ہمارے ساتھ گزارنی تھی مگر اس سے قبل ہی ان کی شہادت ہو گئی۔ والد کا ساتھ اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے، اب کی نسبت پہلے عید زیادہ اچھی گزرتی تھی کیونکہ اس عید میں والد ساتھ ہوتے تھے۔
لانس نائیک صابر شہید کی بیوہ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہوں اور ہمارا جہاد اپنے پیاروں کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے، پاک فوج نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا، شہید کو پاک فوج سے بہت محبت تھی۔ میرے شوہر ہمیشہ کہتے تھے کہ میں پاک فوج اور اس ملک کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں جس پر پوری قوم کو فخر ہو اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ پاک فوج کے شہداء ہمارا فخر ہیں اور عید کی خوشیوں میں انہیں بھی یاد رکھنا ہمارا فرض ہے۔
" مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہوں"
سپاہی کامران راشد شہید کی بیوہ نے کہا کہ میرا شوہر اپنے وطن کی خاطر شہید ہوا ہے اللّٰہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے، مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہوں، میرا شوہر میرا بہت خیال رکھتے تھے اور کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے، عید کے دنوں میں جب وہ گھر آتے تھے تو مجھے اور بچوں کو شاپنگ کے لیے لے جاتے تھے، اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے تو ان کے بغیر ہماری عید ادھوری ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ میرے شوہر کی شہادت قبول کرے اور پاکستان کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔
بیوہ لانس نائیک ابرار حسین شہید نے کہا کہ وہ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے اور عید کے دنوں میں ہمیں خصوصی طور پر باہر گھمانے لے کر جاتے تھے، ابرار نے اپنے بچوں کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے مگر ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔
لانس نائیک ابرار حسین شہید کے بیٹے نے کہا کہ میرے والد کی شہادت کے بعد پاک فوج نے ہمارا بہت خیال رکھا، مجھے اپنے والد کی بہت یاد آتی ہے وہ ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے، میں بڑا ہو کر ان کے نقش قدم پر چلوں گا۔
لانس نائیک ایاز شہید کی بیوہ کا کہنا تھا کہ میرے شوہر بہت اچھے انسان تھے اور ہمارا بہت خیال رکھتے تھے، جب وہ عید کی چھٹیوں پر گھر آتے تھے تو ہم ان کے ساتھ مل کر انتہائی جوش و خروش سے عید مناتے تھے۔ بڑی عید پر وہ اپنے من پسند کے کھانوں کی فرمائش کرتے تھے، ہمارا ان کے ساتھ جتنا بھی وقت گزرا، بہت اچھا گزرا۔ اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگر ان کی بہت یاد آتی ہے۔
شہید کے والدین کا اپنے بیٹے کی یاد میں پیغام
شہدائے وطن نے اپنے خون سے اس پاک سرزمین کی آبیاری کی ہے جو تاقیامت یاد رکھی جائے گی عید کے پرمسرت موقع پر لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوا شہید کے والد نے نم آنکھوں کے ساتھ انہیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج کی عید بھی شہاب کے بغیر گزری جب وہ حیات تھے تو ہم ساتھ نماز پڑھ کر گھر آتے تھے، بیٹے کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے لیکن شہید زندہ ہوتا ہے تو گویا وہ ہمارے ساتھ ہے۔
لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ شہید کے والد نے کہا کہ عید جب بھی آتی ہے مجھے شہاب کی بہت یاد آتی ہے، شہاب کی زندگی میں بھی ہم سب اسی طرح ایک ساتھ بیٹھ کر عید مناتے تھے، بڑی عید پر جب بھی شہاب بیٹا گھر آتا تھا تو خصوصی طور پر بکرا لے کر آتا تھا۔ عید کی نماز کے بعد ہم سب سے پہلے بیٹے کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔
شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں شہید کی ماں ہوتے ہوئے قوم کو یہ پیغام دیتی ہوں کہ شہداء کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی، میں ماؤں سے یہ کہتی ہوں کہ اپنے بہادر بچوں کو اس قوم کے لیے تیار کریں، جو قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں وہ زوال پذیر ہو جاتی ہیں، لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ شہید کے والدین نے بیٹے کی یاد میں محبت بھرے الفاظ کہتے ہوئے کہا کہ
اپنی یادیں اپنی باتیں لے کر جانا بھول گیا
جانے والا جلدی میں تھا مل کر جانا بھول گیا
مڑ مڑ کر وہ دیکھ رہا تھا ہم کو جاتے راستے میں
جیسے اس کو کہنا تھا کچھ وہ کہنا بھول گیا
وقت کے بہتے دریا میں کیسی ہم نے غفلت کی
میں بھی کہنا بھول گیا وہ بھی رکنا بھول گیا
"ملک کی خاطر بیٹے کی جدائی بھی قبول ہے"
لانس نائیک عبدالحلیم شہید کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا بچپن سے ہی بہت اچھے اخلاق کا مالک تھا، اسے بچپن سے ہی پاک فوج میں بھرتی ہونے کا بہت شوق تھا، بیٹے کے بچھڑنے کا دکھ تو ہے مگر شہادت پر بہت فخر بھی ہے، قوم اور ملک کی خاطر بیٹے کی جدائی بھی قبول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا بیٹا اپنے ملک کے لیے شہید ہوا جو میرے لئے سکون کا باعث ہے، ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالی نے میرے بیٹے کو شہادت کی موت عطا کی۔