ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او ) نے سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے حوالے سے ملٹی نیشنل تمباکو کمپنیوں کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کل تجارت کا 23.1 فیصد ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی حالیہ ایک تحقیق جس کا عنوان "پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے واقعات پر اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیے ایک کیس اسٹڈی " ہے میں کہا ہے کہ مجموعی طور پر جعلی ٹیکس سٹیمپ والے پیکوں کی تعداد 1.9 فیصد ہے، اور اسمگل شدہ سگریٹ کل کھپت کا 10.7 فیصد ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ملٹی نیشنل تمباکو کمپنیوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی خرافات اور ہتھکنڈوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان مطالعات سے پتہ چلا کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت 9 سے 17 فیصد تک ہے لیکن انہوں نے جعلی معاملے کی حد کا اندازہ نہیں لگایا۔رپورٹ میں پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ 2015-16 میں مقامی طور پر تیار کردہ سگریٹ پر ٹیکس چوری 53.8 ارب روپے تھی۔ شعبے کیا جانب سے نے پیداوار کو کم رپورٹ کرکے 38.9 ارب (72.7%) روپے بچایا۔ جبکہ 14.6 ارب (27.3٪) ٹیکس چوری سے بچایا گیا۔
کمپین فار ٹوبیکو فری کڈزکے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے کہا 60% سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمباکو کے استعمال سے بچائے کیونکہ اس اقدام سے سال کے آخر تک 200 بلین روپے سے تجاوز کرتے ہوئے اضافی ریونیو پیدا ہونے کی توقع ہے۔