اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ نے کہا ہے کہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس کو بین الاقوامی معیار کے برابر لایا جائے۔
تھنک ٹینک کے مطابق عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کی جانب سے سگریٹ پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے طے کیے گئے پیرامیٹرز میں اس مصنوعات کی وجہ سے معاشرے میں اموات اور بیماریوں کے حجم کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 24 ملین سے زائد پاکستانی فعال تمباکو نوشی کرتے ہیں جو غیر فعال افراد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
پاکستان سگریٹ کی پیداوار کے لئے ایک پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ اس کا شمار ان 9 غریب ریاستوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سگریٹ کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ رکھتے ہیں، یہ تمباکو کے شعبے کے لئے پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ پاکستان میں ریگولیٹرز پر ایم این سی کو بے پناہ طاقت حاصل ہے۔
تھنک ٹینک کے مطابق تمباکو کی صنعت کی جانب سے ٹیکسوں سے بچ کر سستے سگریٹ فروخت کرنے کی صلاحیت کے باعث اس صنعت کا ٹیکس کنٹری بیوشن 2016 کے 92 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 120 ارب پاکستانی روپے (روپے) تک پہنچ گیا۔ اس سے مجموعی ٹیکس وصولی میں تمباکو کی صنعت کا حصہ مالی سال 16 میں 2.15 فیصد سے بڑھ کر 3 فیصد ہو گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے تمباکو ٹیکس پالیسی کو تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ صحت اور سماجی اخراجات میں تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والے حصے (ایس اے ایف) کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
لہٰذا کیپٹل کالنگ نے غیر ضروری اشیاء کی اس صنعت پر ٹیکس عائد کرتے وقت سگریٹ کی صحت کی لاگت کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ اپنی محنت سے حاصل کردہ استحکام سے محروم نہ ہو۔