سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے 9 مئی کے کیسز میں بے قصور قرار دیے گئے ملزمان کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو روسٹرم پر بلا لیا، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوچکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے ملزمان ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصور ہوگا، سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بریت کے فیصلے پر تو کوئی حکم امتناع نہیں تھا، جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں انہیں تو کریں، باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی۔
خیبرپختونخوا حکومت کے اپیل واپس لینے کی استدع
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے اپیل واپس لینے کی استدعا کردی، صوبائی حکومت کے وکیل نے کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کی، وکیل خیبرپختونخوا حکومت نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں، بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی کابینہ کی قرارداد پر تو اپیل واپس نہیں کرسکتے۔ مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کیلئے باضابطہ درخواست دائر کریں۔
بینچ کے سائز اور نجی وکلاء پر اعتراض عائد
درخواستگزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے سائز پر اعتراض عائد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 103 ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ کو عدالتی کاوروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔
اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔
بعد ازاں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی، انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی متفرق درخواست میں بھی 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، عدالت سے استدعا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کمیٹی سے گزارش کرے کہ 9 رکنی بینچ بنایا جائے۔
خواجہ احمد حسین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا، 6 رکنی بینچ نے اگر اسے 4-2 سے کالعدم قرار دے دیا تو یہ متنازع ہوجائے گا، عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازع نا ہو، ایسا تاثر نہ جائے کہ بینچ کی تشکیل سے ہی فیصلہ واضح ہو، بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہوگا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کوبھیجا جائے۔
دوسری جانب کیس میں درخوست گزاروں نے بینچ کے ساتھ نجی وکلاء پر بھی اعتراض عائد کردیا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے 5 اپیلیں دائر کررکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلاء پر کیوں خرچ ہو۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد میں سے بریت کے اہل افراد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی اور فریقین کو نوٹسز جاتے کرتے ہوئےکیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔