تحریر : محمد اکرم چوہدری
بانی پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف پیکج پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، آگے چل کر ان کا بیان بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن پاکستانی سیاست کی سب سے تکلیف دہ بات یہی ہے کہ وہ کام جو خود کیا جائے اچھا لگتا ہے کوئی اور کرے تو برا لگتا ہے۔ اپنے عمل پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں، دوسروں کے اعمال اور فیصلوں کی خامیاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ تنقید کا پہلو تلاش کیا جاتا ہے۔ معصوم اور سادہ لوح لوگوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ یہی کام بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں۔ میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو سن رہا تھا وہ فرما رہے تھے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی وکلاء قیادت نے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے اور آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت میں بیانات جاری کیے لیکن بانی پی ٹی آئی اندر بیٹھ کر مختلف بیانات جاری کر رہے ہیں ۔ یعنی یا تو باہر والوں کو حالات کی سمجھ نہیں ہے یا پھر اندر بیٹھے ان کے قائد سب سے زیادہ باخبر ہیں اور وہ حالات کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔
بہرحال یہ خود آئی ایم ایف کے پاس جا چکے، معاہدہ کیا توڑ دیا اس لیے اگر اب بھی ایسے بیانات کو بنیاد بنا کر کوئی اپنے لیڈر کی تعریفیں کرے تو لیڈر سمیت سب کے سب قابل رحم ہیں۔ بہرحال پڑھ لیجیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کیا کہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی سربراہ کہتے ہیں کہ " آئی ایم ایف پروگرام سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، یہ حکومت پانچ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔"
یہ خان صاحب کی پیش گوئی ہے یا سیاسی سوچ بہرحال جو بھی ہے قابل مذمت ہے اس بیان کے دو حصے ہیں۔ ایک آئی ایم ایف پروگرام پر تنقید دوسرا حکومت کی مدت۔
مان لیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ یہ بات تو پاکستان کا ہر دوسرا شخص جانتا ہے کیا ایک مقبول سیاسی لیڈر کو بھی وہی بات کرنی چاہیے جو سوچ ایک شہری رکھتا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کو بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا دوست ممالک سے قرض نہ لیا جائے تو پھر کیا ہونا چاہیے، اس ضمن قوم کی رہنمائی فرمائیں اور قوم کو یہ بھی بتائیں کہ جتنا عرصہ وہ خود حکومت میں رہے اس وقت انہیں آئی ایم ایف کشکول توڑنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے، کون تھا جو انہیں روکتا، کون انہیں قائل کرتا رہا اور وہ خود کیوں قائل ہوئے، کیوں انہوں نے بحثیت وزیراعظم متبادل ذرائع پر کام نہیں کیا، کیوں وہ جھکتے چلے گئے، کیوں معاہدہ کیا اور کیوں معاہدہ توڑا کیا، کون تھا جس کے کہنے پر خان صاحب آنکھیں بند کر کے دستخط کرتے چلے گئے، ایسی فکر کا مظاہرہ اس وقت کیوں نہیں گیا۔ بہرحال اب وہ "اندر" تو انہیں یہ ضرور چاہیے کہ قرض کے معاملے میں اپنی جماعت کے اہم لوگوں سے بات چیت ضرور کر لیں۔ کیونکہ ان کی باہر والی قیادت تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی حمایت کر چکی ہے۔ اگر خان صاحب کو مہنگائی نظر آ رہی ہے تو پھر انہیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ آئی ایم ایف بل کی حمایت کرنی ہے یا اس کی مخالفت میں ووٹ دینا ہے۔ دکھوں ماری قوم کی رہنمائی کریں، مصائب سے دوچار قوم کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کریں۔ قوم کو بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے۔ قیادت کے قول و فعل کا جائزہ لینا اور احتساب کرنا بھی تو قوم کی ذمہ داری ہے اگر قوم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، عقل کو تالے لگا دئیے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے۔ اگر ایسے ہی قیادت کو آزادی دینا چاہتے ہیں تو پھر بھگتیں نہ وہ ٹھیک ہوں گے نہ حالات بدلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر بانی پی ٹی آئی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے تو قوم کی رہنمائی فرمائیں کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے، کیا ہو سکتا ہے، کیا پاکستان ایک اور عام انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے، کیا اس سے ملک کو فائدہ ہو گا یا نقصان، اگر حکومت نہیں چلتی سیاسی استحکام نہیں آتا تو پھر معاشی استحکام کیسے آئے گا۔ اگر معیشت مستحکم نہیں ہو گی تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہنوں میں ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی اس کا جواب نہیں دیں گے کیوں کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سو ہوش کے ناخن لیں، لوگ اپنی آنکھیں کھولیں عقل سے کام لیں، ملک کو چلانے والی حکمت عملی اور سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں، دشمن ہمیں کاٹنا چاہتا ہے اور اس کے لیے سب سے آسان اندرونی تقسیم ہے اور تقسیم کی اس سے بہتر مثال نہیں ملے جن حالات کا ہمیں سامنا ہے اس سے تشویشناک حالات نہیں ہو سکتے۔ اگر ان حالات میں بھی آپ کا دماغ درست سوچ کی طرف نہیں گھومتا تو پھر یاد رکھیں یہ وقت دوبارہ نہیں آنے والا، آپ سب پچھتائیں گے، اس سے پیشتر کہ دیر ہو جائے بہتر یہی ہے کہ ہوش میں آئیں۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ" حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نیب کے قوانین واپس لے۔ وزیراعظم اورصدر دونوں نیب کی جیلیں لمبا عرصہ گزارچکے ہیں، تمام وزرائے اعلیٰ بھی نیب میں شامل تفتیش ہوئے، نیب کا تماشا اب ختم ہونا چاہیے، پانچواں سال نیب عدالتوں میں شروع ہو گیا پہلے بھی نو سال لگے۔ نیب کے خوف سے ملک کا کوئی افسرکام کرنے کو تیارنہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نیب کے قوانین واپس لے۔ سنا تھا مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ نیب کو ختم کریں گے۔"
شاہد خاقان صاحب نے حکومت سے نیب کو ختم کرنے کی اپیل تو کر دی ہے لیکن کیا وہ اس کی ضمانت دیتے ہیں کہ ملک و قوم کا خزانہ لوٹنے والوں کے لیے بھی کوئی سزا ہونی چاہیے۔ کون لوگ ہیں وہ جو حکومت میں آنے کے بعد امیر ہوئے، ان کی دولت میں اضافہ ہوا اور کسی نے نہیں روکا۔ نیب قوانین ختم کر دیں لیکن کوئی ایسا قانون ضرور متعارف کروائیں کہ اگر کسی نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تو اسے دنوں میں نشان عبرت بنایا جائے گا۔ اگر تو آپ صرف اس لئے نیب ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ صرف سیاست دانوں کو بلایا جاتا ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ وہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے لوگ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگر سیاست دانوں کو لگتا ہے کہ صرف انہیں بلایا جاتا ہے تو یہ غلط ہے۔ سو یہ کام سیاسی قیادت کا ہے وہ اعتماد کی ایسی فضا قائم کریں جہاں کرپشن کی سوچ رکھنے والا ہر شخص ہر وقت خوف میں مبتلا رہے۔ مسئلہ پیشیاں ہرگز نہیں مسئلہ وہ سوچ ہے جو کسی کو پھنسانے اور کسی کو نکالنے کا کام کرتی ہے۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے