نیوزی لینڈ کی حکومت نے خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر اپنا موقف تبدیل ہونے کی تردید کردی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوزی لینڈ کے ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ونٹسن پیٹرز نے خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے پر بھارت اور کینیڈا کے درمیان نیا سفارتی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
کیویز وزیر خارجہ ونٹسن پیٹرز نے دورہ بھارت کے دوران ایک انٹرویو میں ہردیپ سنگھ کے قتل کی تحقیقات سے متعلق کہا کہ ’’ فائیو آئیز کے ذریعے حاصل کردہ شواہد کی "قیمت یا معیار" ہمیشہ واضح نہیں ہوتا ہے اور نوٹ کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر ابھی کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔
دی انڈین ایکسپریس نے ونٹسن پیٹرز سے پوچھا کہ کیا کینیڈا نے نجر کے قتل کے معاملے پر معلومات شیئر کی ہیں ؟ جس پر کیویز وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ کینیڈا نے اپنے الزامات کو ثابت کرنے والے کوئی ثبوت شیئر نہیں کیے ہیں ‘‘۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ پچھلی حکومت نے ہینڈل کیا تھا۔
کینیڈین میڈیا روپورٹس کے مطابق نیوزی لینڈ کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز کے انٹرویو کے بعد شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے تاہم، نیوزی لینڈ کی حکومت نے اوٹاوا سے یہ واضح کرنے کے لیے رابطہ کیا کہ ہردیپ سنگھ نجار کے قتل پر اس کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔
نیوزی لینڈ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ الزامات پر نیوزی لینڈ کا موقف بدستور برقرار ہے ، اگر وہ درست ثابت ہوئے تو یہ سنگین تشویش کا باعث ہوگا۔
کینیڈین میڈیا کی جانب سے ایک آفیشل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ’’ ویلنگٹن نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ پیٹرز کے تبصرے سیاق و سباق سے ہٹ کر کیے گئے ہیں اور یہ کہانی اس کے موقف کی عکاسی نہیں کرتی ہے ‘‘۔
یاد رہے کہ کینیڈین شہری اور خالصتان تحریک کے اہم سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں کینیڈا میں ایک مندر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اپنے حامیوں کے نزدیک نجر سکھوں کی آزادی کا پرامن چیمپئن تھا۔