اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی جبکہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ وردی کی جو عزت ہے اسے برقرار رہنے دیں، لوگوں کو مجبور نہ کریں ، کچھ اداروں کو جو استثنیٰ ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ دوسری دفعہ وزیر اعظم نہیں آئے ؟، سیکرٹری دفاع کیوں نہیں آئے ؟ ، نگران وزرا ، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ کدھر ہیں ؟ ، لاپتہ بارہ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے؟۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ نگران وزیر اعظم کراچی گئے ہوئے ہیں جبکہ میری معلومات کے مطابق آٹھ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے جس پر جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہو چکیں، ہمیں 2 سال لگے اپنے شہریوں کو بازیاب کرنے میں، جو شہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں، ان شہریوں کے خلاف کوئی اغوا برائے تاوان ، قتل یا کوئی اور کیس ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی، اسلام آباد ایف 6 میں سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لے گئے، سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں، یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔
تین حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کا کچھ نہیں کر سکیں
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ مسنگ پرسنز کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں، نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں،ان کو اس لیے بلایا تھا کیونکہ وہ جوابدہ ہیں، یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں؟، یا آپ ان افراد کے خلاف کریمنل کیسز کی تفصیل بتائیں، یا پھر یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے انہیں اغوا کر لیا، اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ تین حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کا کچھ نہیں کر سکیں، ابھی نگران حکومت ہے، اس سے پہلے 16 ماہ کی حکومت تھی، اس سے پہلے والی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کر سکی، تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں، ہم کیوں پی ایم کو بلائیں؟ جن پر الزام ہے انہی ادارے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی، انہیں پالیسی بنانے کا وقت دے دیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وہ کیا کہیں گے کہ کیا جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنی ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی کمشنراسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے، اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ شیر افضل مروت
دوران سماعت ایڈووکیٹ شیر افضل مروت بھی پیش ہوئے اور بتایا کہ میرے گھر پر رات 2 بجے چھاپا مارا گیا اور لوگوں نے ماسک پہن رکھے تھے جس پر جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں، ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر یہاں ایک رکن اسمبلی کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا؟۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اگر آئی جی کا رویہ ٹھیک نہیں ہوگا تو اس کو ہٹا دینا چاہیئے ، جو آدمی دن کو گھر پر ہے اس کے گھر رات ریڈ کیوں؟، جو کچھ ہو رہا ہے سارے نظام کو پتہ ہے جج کو بھی پتہ ہے لیکن سب خاموش ہیں، اگر ریاستی ادارے یہ کریں گے تو چوروں اور ڈاکوؤں سے شہریوں کی حفاظت کون کرے گا ، یہ وانا یا لکی مروت کی بات نہیں کر رہے بلکہ اسلام آباد ایف ایٹ کی بات کر رہے ہیں۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک منتخب ایم این اے اور سپریم کورٹ کے وکیل کے ساتھ یہ رویہ شرمندگی کا مقام ہے۔
شیر افضل مروت کی جانب سے کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد کو 10 دن کے لیے جیل بھیج دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے دلائل
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مزید طلبا کو بھی جبری طور پر گمشدہ کیا گیا، حکومت بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ ریاستی پالیسی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایم آئی پر مشتمل کمیٹی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ یونیفارم کی عزت کو بحال کرانے کی ضرورت ہے، اپنے آئی جی کو بتا دیں کہ اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر آئی جی کے خلاف ہو گی، ساری دنیا دیکھ رہی ہے، یہاں تمام ممالک کے سفارتخانے ہیں، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟ وزیراعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں۔
نگران وزیراعظم ایک بار پھر آئندہ سماعت پر طلب
عدالت نے نگران وزیراعظم، نگران وزیر دفاع اور داخلہ کو ایک بار پھر آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ کسی منتخب وزیراعظم کو ابھی طلب نہیں کر رہا کیونکہ وہ آکر پھر سرے سے شروع کریں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ بطور اٹارنی جنرل آپ تینوں ڈی جیز کو بریف کریں، جو تین رکنی کمیٹی بنا رہا ہوں وہ مستقبل میں بھی جوابدہ ہوں گے، وزیراعظم سے کہہ دیں کہ آئندہ سماعت پر کراچی مت جائے، نگران وزیراعظم کوئی فل ٹائم وزیراعظم نہیں، ان سے کہیں عدالت آنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
وردی کی جو عزت ہے اسے برقرار رہنے دیں
جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ کسی دن گھر سے کوئی مزاحمت کرے گا اور چھاپہ مارنے آنے والے کو گولی مار دے گا، ڈریں اس وقت سے کہ جب ایسا ہو پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، وردی کی جو عزت ہے اسے برقرار رہنے دیں، لوگوں کو مجبور نہ کریں، اسلام آباد سے کوئی بندہ اغواء ہوا تو مقدمہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کے خلاف درج ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے بدقسمتی سے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار نہیں دیا، اگر اسے جرم قرار دیا جاتا تو پھر یہ سلسلہ کہیں رُک جاتا، اسلام آباد کی اگر یہ صورتحال ہے تو بلوچستان تو بعد کی بات رہ جاتی ہے، ہر ادارے کا آدمی عدالت میں آ کر جھوٹ بولتا ہے، سارے نظام کو پتہ ہے کہ کون کیا کر رہا ہے لیکن ہم سب بس خاموش ہیں۔
بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت 28 فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔