تحریر کاشف شمیم صدیقی
کبھی قبرستان جانا ہو اورنظرکسی معصوم بچےکی قبر پرمرکوز ہو جائے، توکچھ عجیب سےاحساسات دلوں میں جگہ بنانے لگتے ہیں۔ احساسات جو ”اذیت، تکلیف، خیال اور لحاظ“پرمبنی ہوتے ہیں،انہی احساسات کے پیش نظراسوقت اورتو شاید کچھ نہیں لیکن اس معصوم کی قبر پر فاتحہ خوانی ضرور کردی جاتی ہے۔
یہ مثبت سوچ،یہ اچھا سا احساس،یہ بہترین کام،قبرستان میں مدفون معصومین کے لیےتوہوجاتا ہے،جو کہ یقیناََ قابلِ قدر اورقابل تعریف ہے!لیکن بستی خاموشاں سے باہرایک جیتی،جاگتی دنیا میں موجود ان زندہ بچوں کا کیاہوگا جنکی پریشاں زیست کا ہرگزرتا دن انکے لیےموت سےبدترہوتاجارہا ہے،جنکے پاؤں ننگے، پیٹ خالی اورجگہ، جگہ سے ادھڑا، پھٹا لباس مقدربنا ہوا ہے،ایسے غریب، لاوارث، بے گھر اور بےسہارا بچوں کی دادرسی کےلیےکیا اقدامات،اورکیا کام ہو نےضروری ہیں جو ان بچوں کی زندگی میں تبدیلی،بہتری اورخوشیاں لاسکیں؟یہ سوال،گزشتہ کئی دہائیوں سے،محض ایک سوال ہی بن کر رہ گیا ہے!
ہم میں بہت سےلوگ اس تلخ حقیقت سےشایدناواقف ہیں کہ پاکستان میں سالانہ، انگنت شیرخوار بچے،اپنی زندگی کے پہلےہی سال موت کےمنہ میں چلے جاتے ہیں، کچھ عرصہ”جی“بھی لیں تو ”پانچ سال“ پورے کرنا محال ہیں، بہت سے تو ایسے بھی ہیں جو خوبصورت زندگی کا خواب، بند آنکھوں میں سجائے واپس لوٹ جاتے ہیں،یعنی کہ پیدا ہوتے ہی،یا پھر رحم ِمادرمیں ہوتے ہوئے ہی، اپنےخالق حقیقی سے جاملتےہیں۔
بچوں کی اموات کا دیرینہ مسئلہ پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے،بالخصوص نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پریشان کن حد تک بڑھی ہوئی ہیں، دوسری جانب انکی صحت سے متعلق شماریات، معلومات اور اقدامات انتہائی ناقص صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں۔دیہی اور پسماندہ علاقوں میں موجود لوگ صحت سے وابستہ علاج و معالجے کی جس نازک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی، چھپی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں موجود بچوں کو لاحق (نمایاں) بیماریوں میں اسہال، نمونیہ، خسرہ، ملیریا اور غذائی قلت سے پیدا ہونے والے مرض عام ہیں، جبکہ نوزائیدہ بچوں میں قبل از وقت پیدائش، دم گھٹنا، تشنج، خون اور جراشیم سے پیدا ہونے والی بیماریاں، موت کی وجہ بنتی ہیں۔ اب تو چکن گونیہ، روٹا وائرس، ڈینگی اور HIV / AIDS جیسے مہلک امراض بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔
تھرپارکر ہو یا عمرکوٹ، میر پور خاص ہو یا پھر مٹیاری اور جیکب آباد۔۔۔ اندرونِ سندھ میں غذائی قلت اور غذائیت کی کمی وجہ سے لاتعداد غریب بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں،2022 کے سیلاب کے بعد کتنے بچے مرگئے، کتنے زندہ ہیں؟کتنے صحیح ہیں، کتنے بیمار؟ کچھ اتا، پتا نہیں۔ مہلک بیماریوں کا علاج پسماندہ اضلاع میں ممکن ہی نہیں، گاؤن والے شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھا نے پر مجبور ہیں، اور سرکاری شخصیات بڑے،بڑے ہوٹلوں میں تقریبات، میٹنگز اور فوٹو سیشن کرواتی نہیں تھکتیں۔
صحت مند زندگی کا خواب پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لاچاربچوں کے لیے محض ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اپنے اوپر بیتی ستم ظریفی تو برداشت ہوہی جاتی ہے لیکن جب غریب والدین سے بات ان کے بیمار بچوں کی صحت کے بارے میں کی جائے، تو شدت افسوس سے آنکھیں نم ہوجانا یقینی ہے، انکی سچ بیانی اگرچہ کہ دن کے بھرپور اجالوں میں سنی جائے، تب بھی سامعین کومایوسی اور ناامیدی کے اندھیروں میں لے ہی جاتی ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کمی وسائل کی ہو یا زیادتی کرپشن کی، پیشہ وارانہ ہنرمندی کا فقدان ہو یا پھر اچھی اور سچی نیتوں کا،ہمار ا ملک کئی عشروں سے اس مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے،پاکستان کا موازنہ اگر دیگر ایشیائی ممالک سے کیاجائے تو باورہوگا کہ پاکستان،بچوں کی اموات یا اسکی روک تھام کے سلسلےمیں، کم ترین شرح کا حامل رہا ہے۔اگرچہ کہ گزشتہ 20 سالوں میں اس سلسلے میں کچھ کام ہوتا ہوا ضرور نظر آیا ہے،لیکن (بشمول دیگر پیچیدگیوں کے) اس کام کی رفتار اسقد ر سسُت ہےکہ حاصل ہونے والے ثمرات بے معنی سے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
صحت سے جڑے مسائل اب تک ختم کیوں نہ ہو سکے؟کیا ذمہ داریوں کو نیک نیتی سے نبھایا جارہا ہے؟اس ضمن میں متعلقہ اداروں اور حکام بالا کی کاوشیں کیا ہیں؟پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں معیاری اور موئثر Healthcare Infrastructure کا قیام کب عمل میں آئے گا؟ کیابدعنوانی،بدنیتی، اقرباء پروری اور ناانصافی جیسے ناسورکا خاتمہ ممکن ہے؟یہ تمام سوالات ملک میں بسنے والے، انسانیت کا درد محسوس کرنے والے اوروطن سے پیار کرنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود، اور جواب طلبی کے منتظر ہیں۔
بہرحال،اب سوچنےوالی بات یہ ہےکہ کیابنےگا ان والدین کا جنکے بچےانکی آنکھوں کےسامنےدم توڑ چکے ہیں،یا پھر وہ جو زندگی اوردردناک موت کےدرمیان کا فاصلہ روز بروز کم ہوتادیکھ رہے ہیں۔کیا ایسے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟کیا والدین کے لیےانکے بچوں کامتبادل کچھ ہو سکتا ہے؟ان کٹھن اور نامصائب حالات میں ہمارے مستقبل کے اس ڈوبتے سورج کاابھرنا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا!!لیکن۔ لیکن اگر یہ معجزہ رونما نہ ہوا تو تو کیاہو گا؟دعا ہے،اللہ کریم ہمارے وطن عزیز کے بچوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور انہیں ہر بیماری سے شفا عطا فرمائے۔