چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے ) کی جانب سے صحافیوں کو بھیجے جانے والے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا۔
صحافیوں کو ہراساں کئے جانے پر سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ فیصلے پر تنقید کی بناء پر جاری نوٹسز واپس لئے جائیں۔
پیر کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے پر سوموٹو کیس کی سماعت کی جس کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی پیش ہوئے۔
سماعت کا آغاز
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں کے خلاف کتنے کیسز ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 4 درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزارہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی میں پاکستان بار کے نمائندے یہاں موجود ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی تو اب ختم ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے سینئر صحافی قیوم صدیقی سے استفسار کیا کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ میں کچھ حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا تھا، معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے، عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کیس چلانا نہیں چاہتے۔
عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ معاملہ سابق جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تب کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021ء سے سرد خانے میں رکھا ہوا ہے، بتائیں کہ تب آپ کی کیا درخواست تھی اور اب کیا ہے؟۔
صحافی قیوم صدیقی نے کہا کہ میں نے تو کہا تھا کہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سرکار کہتی کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا پھر داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر محض کاغذ پر تحریر سمجھیں۔
مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے اپنی غلطی معلوم ہوگی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس دفن ہونے سے تو بنیادی حقوق بھی دفن ہوگئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ ، مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے اپنی غلطی معلوم ہوگی۔
عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جیسے آپ کے سامنے مسئلہ رکھا سابق چیف جسٹس کے پاس جانا چاہا لیکن ہمیں سابق چیف جسٹس گلزار کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بس سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کرنی، صرف موجودہ پر کرنی ہے، اٹارنی جنرل صاحب یہ شکایتیں سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں ہوتیں؟ ، دنیا بھر میں زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور ہم یہاں کہتے ہیں بس آگے بڑھو مٹی پاؤ۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بس رپورٹ دے دی کہ کسی صحافی کیخلاف کارروائی نہیں چل رہی، ایف آئی اے نے پرانی کارروائیوں پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد طور سے پوچھیں کہ کیا انہیں مارنے والے لوگ پکڑے گئے؟ اسد طور کیا آپ ان لوگوں کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟۔
صحافی اسد طور نے بتایا کہ جنہوں نے تشدد کیا وہ پکڑے نہیں گئے ، آج بھی دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تشدد کرنے والے ملزمان کے خاکے بنائے گئے تھے؟ جس پر اسد طور نے جواب دیا کہ سکیچ بنا تھا لیکن جیو فینسنگ نہیں ہوئی تھی، مارنے والے خود کہہ رہے تھے کہ آئی ایس آئی سے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب ایک شخص خود نام لے رہا ہے تو سچ جھوٹ کی تحقیق کیوں نہیں ہوئی؟ جب تک حساب نہیں لیں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، اسد طور کا کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا یا ابھی بھی چل رہا ہے؟۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسد طور کیس کی جامع اور مفصل رپورٹ جمع کرائیں۔
اسد طور نے استدعا کی کہ میں ازخود نوٹس کی پیروی کرنا نہیں چاہتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نہ کریں لیکن ہم خود اس کیس کو دیکھیں گے۔
تنقید کی بناء پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیں،چیف جسٹس کا حکم
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تنقید کی بناء پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیں اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالم گلوچ الگ بات ہے ، صرف تنقید کی بناء پر کارروائی نہ ہو۔
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں ، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں تو مجھے کوئی فکر نہیں، عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا، سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں، آپ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ نہیں نقصان کررہے ہیں، صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کرتے رہیں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی بھی صحافی یا عام آدمی کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ کے بارے میں تنقید کرنے پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ تھمبنیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔
خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گالم گلوچ غلط ہے لیکن تنقید پر ممانعت نہیں، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہیں، ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں۔